اسلام آباد:اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور پاکستان مسلم لیگ (ن)کے صدر شہباز شریف نے پاکستان پیپلزپارٹی(پی پی پی)کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر مشاورت کی گئی لیکن تینوں بڑوں کی ملاقات کے باوجود کوئی حتمی فیصلہ نہ ہوسکا ۔
پاکستان مسلم لیگ(ن)کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ صدر پاکستان مسلم لیگ (ن)اور قائد حزب اختلاف شہبازشریف کی مولانا فضل الرحمن کے ہمراہ سابق صدر آصف زرداری سے وفد کی سطح پر اہم ملاقات ہوئی جہاں ملکی سیاسی صورت حال اور عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے اہم امور پر گفتگو ہوئی۔
اجلاس میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے متعلق حتمی فیصلہ نہ ہو سکا اور اپوزیشن جماعتوں نے تمام کام اپنی قانونی ماہرین کی ٹیم کو سونپ دیا۔سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اس حوالے سے بتایا کہ تحریک عدم اعتماد سے متعلق نمبر گیم پوری ہے، تحریک عدم اعتماد سے متعلق کوئی ڈیڈ لاک نہیں اور سب ایک پیج پر ہیں۔انہوں نے کہا کہ نہ پہلے فون آئے تھے نہ اب آئے ہیں، تحریک لانے سے قبل اسپیکر کے کردار کو دیکھنا ہے، اسی لیے قانونی ماہرین کو اسپیکر کے کردار کے جائزے کا کام سونپ دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک سے متعلق تین بڑوں نے علیحدہ بیٹھ کر بات کی ہے کہ آیا تحریک عدم اعتماد اسپیکر کے خلاف جمع ہوگی یا وزیراعظم کے خلاف جمع ہوگی تاہم بات تو وزیراعظم کی ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو اسلام آباد پہنچیں رہے ہیں، اس کے بعد اپوزیشن کی ملاقات ہوگی،اس سے قبل مولانا فضل الرحمن سے پی پی پی رہنماں خورشید شاہ اور نوید قمر نے ملاقات کی تھی۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ پی پی پی کے ساتھ قیادت کی سطح پر پی ڈی ایم کی اعلی سطح پر ملاقات ہوگی۔انہوں نے کہا تھا کہ جو معلومات کا تبادلہ ہوا ہے، وہ بڑی حوصلہ افزا ہیں اور قوم کو ان کی امیدوں اور امنگوں کے مطابق اس کے نتائج حاصل ہوں گے۔خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ملاقات کے حوالے سے تفصیلات سے میڈیا کو آگاہ کیا جائے گا۔
گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں صحافیوں سے غیر رسمی ملاقات کے دوران مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ تمام اپوزیشن جماعتوں کا موجودہ حکومت گرانے پر اتفاق ہے، ہمارا فوکس ہے کہ خزاں جائے، بہار آئے یا نہ آئے۔ان کا کہنا تھا کہ اگلے 48 گھنٹوں میں تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ ہوا ہے اور تحریک کی کامیابی کے لیے نمبرز پورے ہیں۔