اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ عدالت بلوچستان کے طلبہ کی آواز دبانے کی اجازت نہیں دے گی جبکہ اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے بچے ہیں اور ان کے ساتھ یہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ عدالت نے کیس کی سماعت 21 مارچ تک ملتوی کر دی
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیشنل پریس کلب کے باہر بلوچ طلبہ کے احتجاج پر مقدمہ درج کرنے کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی جس دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، آئی جی اسلام آباد احسن یونس اور ایڈیشل سیکرٹری داخلہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ بلوچستان کے بچے ہیں اور پرامن طریقے سے بیٹھے ہیں ، ان بچوں کو زیادہ توجہ وفاقی حکومت کو دینی چاہیے لیکن ان کے پاس ابھی تک کوئی نہیں گیا، وفاقی حکومت کو چاہیے کہ ان کو فورمز دیں تاکہ ان کی بات سنی جائے ، یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے، بلوچ طلبہ کو ہراساں کرنا درست نہیں ہے ، میں دیکھوں گا تاکہ حکومت کی جانب سے کوئی ان کے پاس جائے، میں بلوچستان کے طلبہ سے معذرت چاہتا ہوں جو کچھ ہوا، وہ ہمارے بچے ہیں ان کے ساتھ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیراعظم خود وہاں جاتے، کیا ہم ایف آئی آر کو کالعدم قرار دے دیں؟ اس ایف آئی آر کو دیکھ لیں رپورٹ عدالت میں جمع کرا دیں، عدالت بلوچستان کے طلبہ کی آواز دبانے کی اجازت نہیں دے گی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت مقدمہ خارج نہ کرے بلکہ پولیس کو یہ کام کرنے دے۔