وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کامیاب پاکستان پروگرام کے تحت 45 لاکھ مستحق خاندانوں کو ایک ہزار ارب روپے مالیت کے قرضے فراہم کئے جائیں گے جسکا مقصد انہیں غربت سے نکالنا اور اپنے روزگار کمانے کے قابل بنانا ہے۔ کامیاب پاکستان پروگرام جسکا مقصد ملک کو فلاحی ریاست کی طرف لے جانا ہے اوراسے مزید وسعت دی جائے گی۔ غربت کا خاتمہ وزیراعظم کے ویژن کا حصہ ہے پروگرام کے تحت بلاسود قرضے 5لاکھ اور گھر کیلئے 27 لاکھ، دوسال میں 407 ارب روپے اور حکومت 146 ارب روپے کی سبسڈی فراہم کرے گی۔ ہر مستحق خاندان کے ایک فرد کو تکنیکی تربیت بھی فراہم کی جائے گی تاکہ وہ اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں۔ اس اقدام سے ملک کا غریب طبقہ معاشی طور پر خود کفیل ہو گا۔ اس پروگرام سے پہلے کامیاب جوان پروگرام کے تحت بھی نوجوانوں کو کاروبار کے لیے قرضے دینے کی سکیم کا اجرا کیا جا چکا ہے، جو یقینا خوش آئند ہے۔ یہ پروگرام محدود پیمانے پر ملک کے چاروں صوبوں گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں جاری ہے اور اسکے تحت ڈھائی ارب روپے کی رقم تقسیم کی جا چکی ہے۔ مالی سال 26-2025 کے اختتام تک ایک ہزار ارب روپے کے بلاسود قرضے فراہم کیے جائیں گے۔ توسیع شدہ پروگرام کے تحت کامیاب اوورسیز پاکستانی منصوبہ بھی زیر غور ہے جو ان غریب پاکستانیوں کو دیے جائیں گے جو بیرون ملک ملازمت تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن انکے پاس سفری ویزے اور ان سے متعلقہ اخراجات کے لیے درکار رقم نہیں ہوتی۔یقینا یہ اقدام ان پاکستانیوں کی مدد کے ذریعے ترسیلات زر میں اضافے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے ۔ کامیاب پاکستان پروگرام کے تحت قرضے حاصل کرنے کیلئے حکومت نے ایک پورٹل تیار کیا ہے اورپروگرام کے تحت دیے جانے والے قرضے ملک کے بینکوں سے عام افراد کو جاری کیے جائیں گے تاہم حکومت بینکوں کی جانب سے وصول کیے جانے والے شرح سود کو اپنی جیب سے سبسڈی کی صورت میں ادا کرے گی۔
پروگرام کا اعلان اس وقت کیا گیا ہے جب حکومت نے ملک میں پیٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں میں بھی کمی کی ہے۔ بظاہریہ اقدامات سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہیں تاکہ اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کی جا سکے، البتہ حکومت کی جانب سے اس تاثر کو مسترد کیا گیا ہے کہ یہ اقدام کسی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ دوسری طرف بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف نے حکومت کی جانب سے تعمیراتی شعبے میں دیے جانے والے رعایتی قرضوں پراعتراض کر رکھا ہے اور امکان ہے کہ کامیاب پاکستان پروگرام پر بھی یہ اعتراض آئے گا۔ پوری دنیا میں یہ ہوتا ہے کہ جب الیکشن سائیکل شروع ہوتا ہے تو حکومتیں ایسے اقدامات کر کے ووٹرز کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ملک کا مالی خسارہ بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اسے اب رعایتی قرضوں پر سبسڈی بھی دینی پڑے گی جسکا مطلب ہے کہ یہ پروگرام ایک سیاسی مقصد بھی اپنے اندر رکھتا ہے۔ دنیا میں تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں یہاں کم ہو گئی ہیں۔بجلی کی قیمت کم کر دی گئی جبکہ متعلقہ اداروں کو پتا نہیں کہ کیسے بجلی کو کم نرخوں پر بیچیں۔اب کامیاب پاکستان پروگرام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی لگتا ہے۔ حکومت کے تازہ ترین اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ اب تمام اقدامات سیاسی نقطہ نظر سے لیے جا رہے ہیں۔
صرف پیسے دینے سے کوئی کاروبار شروع نہیں ہو سکتا، مسلم لیگ ن کے سابقہ دور میں بھی الیکشن سے قبل اسی طرح کی سیاسی حکمت عملی اپناتے ہوئے عوامی مقبولیت کیلئے حکومت نے اپنے چھٹے اور آخری بجٹ میں اِنکم ٹیکس چھوٹ کی حد 4 لاکھ سے بڑھا کر12 لاکھ کی حد کرکے انتخابی وسیاسی فائدہ تو اٹھایا تاہم تحریکِ انصاف کی حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں کم از کم قابلِ ٹیکس آمدن کی حد 12 لاکھ سے کم کر کے تنخواہ دار طبقے کیلئے چھ لاکھ اور دیگر کیلئے واپس چار لاکھ مقرر کردی اور کہا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے اس سیاسی اقدام سے ملک کو 80ارب روپے کا نقصان ہوا۔اسی طرح ماضی میں پیلی ٹیکسی سکیم کا اجرا کیا گیا تو پرویز مشرف دور میں غریبوں کو رکشے دینے کی سکیم کا اعلان کیا گیا لیکن ان پروگرامز سے معاشرے کے غریب طبقے اوپر نہیں اٹھ سکے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسے قرضے فراہم کیے جاتے ہیں لیکن انھوں نے اسکے لیے ایک خاص طریق کار اختیار کر رکھا ہے کہ کاروبار کے لیے قرضہ دینے سے پہلے حالات کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور اسکے بعد نگرانی کی جاتی ہے کہ جن مقاصد کے لیے قرضہ دیا گیا ہے کیا وہ واقعی صحیح مقاصد کے لیے استعمال ہوا ہے اور اس سے مطلوبہ نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ پاکستان میں ایسا کوئی نظام تاحال وجود میں نہیں آیا جس سے ایسے پروگرامز ناکام رہے ہیں۔
ضرورت ہے کہ ٹیکس بیس کو بڑھانے کیلئے متوقع 72 لاکھ افراد کوہراساں کیے بغیرٹیکس نیٹ میں لانے کی حکمت عملی کو جلد حتمی شکل دی جائے اور مالی سال میں پوائنٹ آف سیل پروگرام کو زیادہ سے زیادہ تاجروں تک پہنچایا جائے گا۔مستحکم اور مجموعی اقتصادی نمو کے حصول کیلئے طویل المدتی منصوبہ بندی پرعمل کیا جائے، سرکاری انٹرپرائزز، نجکاری، توانائی، مقامی تجارت اور ملک میں قیمتیں مستحکم رکھنے کو عملی بنایاجائے۔مہنگائی پر حقیقی معنوں میں کنٹرول کیلئے قیمتوں میں استحکام سے متعلق قلیل مدتی، درمیانی مدتی اور طویل مدتی تجاویز پر عملی اقدامات کیے جائیں ۔ دستاویزی و مربوط شعبوں کو تقویت دینے اوربحالی کیلئے مختصر مدت کے دوران منظم ماحول، شراکت میں اضافہ اورای کامرس کی حقیقی صلاحیت کا ادراک کیا جائے۔ کمپنیوں کے اندراج پر ٹیکس کریڈٹ اور درمیانی مدت کے منصوبوں کے تحت خواتین کو ملازمت میں شامل کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے جبکہ تجارتی شعبے کو فروغ دینے کے لیے طویل المدتی حکمت عملی کے تحت ٹیکس ایڈجسٹیبیلیٹی کے اقدامات کیے جائیں۔دنیا بھر میں کہیں بھی اقتصادی ترقی واستحکام محض حکومت سبسڈی سے ممکن نہیں ہوئی اسکے لیے مستحکم اور مجموعی اقتصادی نمو کے حصول کیلئے طویل المدتی منصوبہ بندی پرعمل ضروری ہے، وگرنہ کامیاب پاکستان پروگرام سے غربت کا خاتمہ اورفلاحی ریاست کا قیام عملی کی بجائے محض سیاسی اقدام ہو گا۔