یہ خونریزی کب رکے گی؟

یہ خونریزی کب رکے گی؟

اللہ پاک اس ملک پر رحم فرمائے۔ نجانے خونریزی کا یہ سلسلہ کب رکے گا؟پشاور کے تاریخی قصہ خوانی بازارمیں واقع جامع مسجد امامیہ میں ہونے والی دہشت گردی کی واردات نے ایک مرتبہ پھر ملک بھر میں دکھ اور سوگواری کی ایک لہر دوڑا دی ہے۔ یہ افسوسناک واقعہ اہل تشیع کی ایک مسجد میں عین نماز جمعہ کے وقت رونما ہوا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس سانحے میں 63 افراد جاں بحق ہوئے ۔ کم و بیش دو سو افراد زخمی ہوئے۔ابھی تک کئی رخمی شہری انتہائی تشویشناک حالت میں پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ وزیر اعظم اور وفاقی وزراء نے دہشت گردی کے اس واقعے کی پر زور مذمت کی ہے۔ دنیا سے رخصت ہونے والوں کے لئے مغفرت اور ان کے اہل خانہ کے لئے صبر جمیل کی دعا کی ہے۔ دکھ کی اس گھڑی میں حادثے کا شکار ہونے والوں کے لواحقین کو یقینا دعاؤں کی حاجت ہے ۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ہم رسمی مذمتی بیانات اور تعزیتی پیغامات سے آگے بڑھیں اور دہشت گردی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کیلئے عملی اقدامات کریں۔ گزشتہ حکومت نے نہایت محنت اور کاوش کے بعد دہشت گردی کے عفریت پر قابو پایا تھا۔لیکن پچھلے ایک ڈیڑھ برس سے ایک مرتبہ پھر یہ عفریت ہم پر مسلط ہوتا جا رہا ہے۔ 
ہم بخوبی آگاہ ہیں کہ کچھ برس پہلے تک ہمارا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا۔ بم دھماکے، قتل و غارت گری کی وارداتیں معمول بن چکی تھیں۔ خاص طور پر خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے شہریوں کے لئے پرامن زندگی گزارنا ایک خواب بن گیا تھا ۔روشنیوں کے شہر کراچی کا امن بھی تباہ ہو چکا تھا۔ دسمبر 2014میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردی کا ایک نہایت خوفناک واقعہ رونما ہوا۔معصوم بچوں سمیت کم وبیش 150 معصوم اور بے گناہ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد اس وقت کی وفاقی حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف حتمی اقدام کرنے کا فیصلہ کیا۔قومی سیاسی اور عسکری قیادت مل بیٹھی۔ ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی مشاورتی عمل میں شامل کیا گیا۔ اس مشاورت کے نتیجے میں دسمبر 2014 کو ایک بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان وضع ہوا۔ ان بیس نکات کا مقصد یہ تھا کہ دہشت گردی کا قلع قمع کیا جائے۔ گزشتہ دور حکومت میں ہی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب اور آپریشن رد الفساد کا آغاز بھی ہوا۔ ان فیصلہ کن اقدامات کے نتیجے میں دہشت گردی کے عفریت پر کافی حد تک قابو پالیا گیا۔صوبہ بلوچستان کا امن بحال ہوا۔ کراچی ایک مرتبہ پھر روشنیوں کا شہر بن گیا۔ قبائلی علاقوںکی صورتحال میںبھی کافی بہتر ی آئی۔برسبیل تذکرہ گزشتہ دور حکومت میں ہی، پیغام پاکستا ن نامی ایک نہایت اہم دستاویز کا اجراء ہوا تھا۔ مختلف مسالک اور مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے اٹھارہ سو علماء اور دینی رہنماوں نے ایک متفقہ فتویٰ دیا ،جس میں دہشت گردی ، خونریزی اور خود کش حملوں کو حرام قرار دیا گیا تھا۔ پیغام پاکستان بھی انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے کی جانے والی ایک اہم کاوش تھی۔
اب گزشتہ ڈیڑھ برس سے ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کے واقعات تواتر سے رونما ہو نے لگے ہیں۔ بلوچستان میں دہشت گردی نے پھر سے سر اٹھا لیا ہے۔ شہر کراچی کے امن عامہ میں خرابی کی خبریں بھی سننے کو ملنے لگی ہیں۔ اب پشاور میں بھی یہ خوفناک سانحہ رونما ہو گیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پشاور میں ہونے والے اس واقعے کی ٹائمنگ نہایت اہم ہے۔ اس وقت آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم چوبیس برس کے بعد پاکستان کے دورے پر آئی ہے۔ کرکٹ کی وجہ سے ساری دنیا کے میڈیا کی نظریں ہم پر جمی ہیں۔امن وامان میں خرابی کی خبریں غیر ملکی کھلاڑیوں کو خوفزدہ کر نے اور دنیا بھر میں پاکستان کا تاثر خراب کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔ تجزیہ کار، دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کو فاٹف سے بھی جوڑتے ہیں۔ پاکستا ن گزشتہ چار برس سے فاٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے کوشاں ہے۔ دہشت گردی کے یہ واقعات پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے بلکہ بلیک لسٹ میں دھکیلنے کی سازش کا حصہ ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے۔ عمومی طور پر ہمیں اس میں غیر ملکی سازش کی بوآتی ہے۔ سانحے کا الزام کسی ہمسایہ ملک پر عائد کر دیا جاتا ہے یا پھر اس کے تانے بانے مغرب سے جوڑ دئیے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت سمیت پاکستان کے بہت سے بد خواہ موجود ہیں، جو نہیں چاہتے کہ پاکستان خوشحالی اور امن کی راہ پر گامزن ہو۔ لیکن کیا ہر واقعے کے بعد ہمیں دشمن کی چالوں کا رونا روتے رہنا چاہیے ؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ اس نوحہ خوانی کے بجائے ہم دشمن کی چالوں کو ناکام بنانے کی عملی تدابیر کریں۔ اپنے گریبان میں جھانکیں۔ اپنی کمزوریوں پر نگاہ ڈالیں اور اپنی اصلاح احوال کریں۔ 
اللہ کے فضل سے پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے۔ اس کے پاس دنیا کی بہترین فوج ہے۔ اس کی ایجنسیاں بارہا اپنی صلاحیت کا لوہا منوا چکی ہیں۔انسداد دہشت گردی کے لئے  نیکٹا جیسا اہم اور بھاری  بھرکم انفراسٹرکچر کاحامل ادارہ موجود ہے۔ ہمارے ہاں پولیس ہے اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے بھی۔ ان سب اداروں کی موجودگی میں تواتر کیساتھ دہشت گردی کے واقعات کا ہونا نہایت تشویشناک صورتحال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ سانحہ پشاور کے بعد عمران خان نے اعلان فرمایا کہ انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ دہشت گرد کہاں سے آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کا تعاقب کیا جائے گا۔ عوام توقع کرتے ہیں کہ امن عامہ کے ذمہ دار تمام متعلقہ ادارے دہشت گردی کی اتنی بڑی واردات رونما ہونے کے بعد دہشت گردوں کا تعاقب کرنے کے بجائے، ان واقعات کی روک تھام کے لئے اپنا کردار ادا کریں تاکہ بیسیوں جانیں ضائع ہونے سے بچ سکیں۔ امن و امان کو قائم رکھنے والے تمام ریاستی ادارے یقینا مثبت کردار کے حامل ہیں۔ لیکن جب دہشت گردی کے خوفناک واقعات تسلسل سے رونما ہونے لگیں تو عوام الناس کی نظر میں اداروں کے بارے میں اچھا تاثر نہیں ابھرتا۔ 
اخبارات میںو زیر داخلہ شیخ رشید احمد کے بیانات بھی پڑھنے کو ملے۔ ان کا کہنا ہے کہ چند گھنٹوں کے اندر اندر پشاور کی جامع مسجد میں ملوث دہشت گردوں کا پتہ لگا لینا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ’’زبردست ‘‘کارکردگی کا مظہر ہے۔وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ کے ترجمان بیرسٹر سیف کا بیان بھی نگاہوں سے گزرا، جس میں انہوں نے فرمایاکہ دہشت گردی کا یہ واقعہ حکومت یا سکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی ہرگز نہیں ہے۔جن کے پیارے دہشت گردی کی نذر ہو گئے۔ ان خاندانوں پر تو ایک قیامت بیت گئی ہو گی۔ جو شہری اس بم دھماکے کے بعد عمر بھر کے لئے معذور ہو گئے ہیں۔ ان کی زندگیاں بھی برباد ہو گئی ہیں۔ ایسے بیانات سن اور پڑھ کر وہ یقینا دکھی ہوتے ہوں گے۔ سوچتے ہوں گے کہ 63 معصوم جانوں کی ہلاکت اور 200 شہریوں کے زخمی ہونے کی ذمہ داری آخر کس پر عائد ہوتی ہے؟
بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے تناظر میں،لازم ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے دہشت گردی کے قلع قمع کیلئے کوئی حکمت عملی وضع کریں تاکہ خونریزی کا یہ سلسلہ تھم سکے۔ آخر کب تک ہمارے شہری اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔ نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات پر عملدرآمد کو یقینی بنانا چاہیے۔ ان نکات میں شامل تھا کہ انسداد دہشت گردی کیلئے قائم ادارے نیکٹا کو فعال بنایا جائے گا۔ مدارس کے نصاب کی اصلاح کی جائے گی۔ نفرت انگیز مواد کی اشاعت پر پابندی عائد کی جائے گی۔ میڈیا کا قبلہ درست کیا جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ آٹھ سال بیت چکے ہیں ۔ لیکن نیشنل ایکشن پلان کے بہت سے نکات ایسے ہیں جن پر آج تک عمل نہیں ہو سکا۔ کاش وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس اہم دستاویز پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے پوری قوت سے بروئے کار آئیں، تاکہ ملک کو دہشت گردی کے عفریت سے نجات مل سکے۔ 

مصنف کے بارے میں