عورتوں کے عالمی دن کے حوالے سے عورت مارچ بھی آنے کو ہے اور اس کے خلاف اس کی کوکھ سے پیدا ہونے والوں کی طرف سے طرح طرح کی درفنطنیاں چھوڑی جا رہی ہیں۔ اسی حوالے سے مارچ کے مہینے میں سوشل میڈیا پر متعدد ریڈی میڈ مفتی پیدا ہو رہے ہیں جو عورتوں کے اس دن کو لے کر اپنی اپنی دکان چمکا رہے ہیں اور ہر فتوے میں عورت مارچ میں شریک خواتین پر ’’حد‘‘ لاگو کر رہے ہیں۔ افسوس کہ اس مہم میں ایک وفاقی وزیر بھی حصہ دار ہیں۔ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کے نعرے کو اپنی اپنی ذہنیت کے تحت معنی پہنائے جا رہے ہیں، کبھی مذہب کی آڑ میں اور کبھی اخلاقیات و اقدار کے سہارے منفی مہم چلا کر۔ اس دن کے حوالے سے ملک بھر میں ہونے والے ’’عورت مارچ‘‘ میں لائے گئے کتبوں ( Play Cards) پر درج معقول نعرے اور سلوگنز ہٹا کر بیہودہ اور غلیظ نعرے Photoshop کے ذریعے درج کر کے سوشل میڈیا پر ان کی تشہیر کی جاتی رہی۔ عورت مارچ کی مخالفت میں فتوے جاری کرنے والوں پر جب ان غلاظت بھرے نعروں کی حقیقت سامنے آئی تو ان کی مذمت کرنا بھی گوارا نہیں کیا گیا۔
ایک خاص طبقہ فکر کی طرف سے عورتوں کے عالمی دن کے حوالے سے ’’یوم حیا‘‘ منانے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ اچھی بات ہے انہیں بھی اس کا حق ہے لیکن اپنا حق منوانے کے لیے کسی کا حق چھیننا کہاں کی انسانیت ہے۔
عورت کو مفتوحہ یا مال غنیمت سمجھنے والی ذہنیت کے لوگ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کے نعرے کی مخالفت کرتے ہیں اور اسے اپنی مردانگی پر چوٹ قرار دیتے ہیں۔ ہر کوئی اسے اپنی ذہنیت کے مطابق معنی پہنا رہا ہے۔ ملاّ حضرات تو اس نعرے کا تعلق عورت سے جنسی تعلق تک محدود کر دیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلام میں اپنی منکوحہ کو بھی حق مہر کی ادائیگی یا عورت کی رضا سے حق مہر کی معافی کے بغیر اسے ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ لیکن ملاّ نے کبھی عورت کی اس رضا کا پرچار نہیں کیا۔ اسلام میں تو عورتوں کو وراثت کا بھی حق ہے اور 90 فیصد عورتیں اس حق سے محروم کر دی جاتی ہیں۔ بعض علاقوں میں جاگیریں بچانے کے لیے خواتین کی قرآن پاک سے شادی طے کر دی جاتی ہے جس کا قرآن پاک یا اسلام میں کوئی تذکرہ نہیں۔ میرا سوال ہے کہ عورت کی وراثت اور ان غیر اسلامی شادیوں کے خلاف کسی مفتی یا ملا نے منبر سے آواز اٹھائی یا حد لگائی؟ عورت جب کسی کے نکاح میں آ جاتی ہے تو اسے غلام یا باندی اور بچے پیدا کرنے کی مشین سمجھ لیا جاتا ہے۔ عورت جب ماں باپ کا گھر چھوڑ کر کسی کے گھر
منکوحہ بن کر جاتی ہے تو حقیقت میں وہ ایک نئے خاندان کی معمار ہوتی ہے۔ اسی لیے بچوں کی بہتر پرورش، اپنی صحت اور معاشی حیثیت دیکھتے ہوئے اس عورت کو بھی حق ہونا چاہیے کہ اس کی کوکھ کب کب ہری ہو۔ کہنے کو تو ماں کے قدموں تلے جنت
ہے لیکن اس عظیم مرتبے کی حامل ہستی جب اپنے حق کی بات کرتی ہے تو مرد کی مردانگی پر حرف آ جاتا ہے۔ عورت ہی اصل میں گھر کی حاکم ہوتی ہے اور یہ جو بیویوں سے ڈرنے کے لطیفے بنے ہوئے ہیں یہ بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی بات ہی ہے۔ لیکن اس حاکمیت کو مثبت حیثیت سے منوانے کے بجائے عورت کو عفریت یا ڈرانے والی چیز کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔ میرا جسم میری مرضی کا مطلب یہ بھی ہے کہ عورت اپنی زندگی کی مالک اسی طرح بنے جس طرح مرد کو حق ہے۔ ہمارے گھٹن زدہ نامرد معاشرے میں ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا تعلق صرف جنسی تعلق سے جوڑ دیا جاتا ہے اور ایسا کرتے وقت ہم بھول جاتے ہیں کہ عورت بھی مرد کی طرح گوشت پوست کی انسان ہے، اس کے بھی جذبات اور احساسات ہیں اور اپنی زندگی گزارنے کے لیے اس کی بھی اپنی مرضی ہو سکتی ہے۔ عورت کا بھی مرد کی طرح حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جیے۔ مرد کا معاشی حوالے سے طاقتور ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ عورت سانس بھی اس کی مرضی سے لے۔ عورتوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے
’’عورت مارچ‘‘ کے علامتی اکٹھ سے ہٹ کر اپنی اولاد کی بہتر تعلیم و تربیت کریں اور سب سے بڑھ کر اپنے بیٹوں کو عورت کی عزت گھر سے سکھا کر بھیجیں تا کہ وہ کل کو بڑا ہو کر کسی عورت کے لیے مسئلہ نہ بنے اور یہ ایک ماں ہی کر سکتی ہے۔ قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے اور اگر عورت گھر کے مرد کو اپنی گود سے عورت کی عزت کرنا سکھا دے تو ہمیں عورتوں کے حقوق کے لیے کسی عورت مارچ کی ضرورت نہ پڑے اور یہ دن محض ایک فیسٹیول کے طور پر منایا جائے۔ ماں باپ اپنی بیٹیوں کو رخصت کرتے وقت یہ کہنے کے بجائے جس گھر جا رہی ہو وہاں سے تمہارا جنازہ اٹھے، کہنے کے بجائے یہ دعائیں دینا شروع کر دیں کہ بیٹا اپنے نئے گھر میں خوش و خرم رہو دوہتوں نہاؤ پوتوں پھلو لیکن جس دن تم سمجھو کہ تم سے زیادتی کی جا رہی ہے اسی دن ہمارے پاس لوٹ آنا کہ زندگی ایک بار ہی ملتی ہے، اسے کسی کی خواہش کی بھینٹ نہ چڑھانا۔ میں نے ایسا ہی کیا اپنی بیٹیوں کو رخصت کرتے وقت دعائیں دیں لیکن کہا کہ جب بھی سمجھو کہ تمہیں کمتر سمجھا جا رہا ہے تنگ کیا جا رہا ہے تو ایک لمحے کے لیے بھی نہ رکنا اور یہ خیال کیے بغیر کہ ہائے اللہ ماں باپ کی عزت کا کیا ہو گا واپس لوٹ آنا۔ کیونکہ تمہاری زندگی ماں باپ کی عزت سے کہیں قیمتی ہے۔
اب آتے ہیں کالم کے عنوان ’’عورتیں مرد جتنی گھٹیا نہیں ہوتیں‘‘ کی طرف۔ سعادت حسن منٹو لکھتا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ عورتیں سڑکوں پر کھڑی ہو کر سگریٹ پئیں، سگریٹ کے دھوؤں سے چھلے بنا کر پاس آتے جاتے لڑکوں کے منہ پر چھوڑیں۔ وہ پان کھائیں، گٹکا کھائیں اور بے پروا ہو کر تھوکیں اور سڑکوں اور دیواروں کو اپنی تھوک سے سرخ کر دیں۔ وہ پان کی دکانوں پر بیٹھیں، آنے جانے والوں کو تاڑیں۔۔
میں چاہتا ہوں کہ عورتیں باتیں کریں کہ فلاں آدمی کا بیٹا بڑا حرامی ہے وہ باتیں کریں کہ فلاں آدمی کے داماد کا پہلے کسی لڑکی سے چکر تھا شادی سے پہلے ہی Virginity لوز کر دی ہو گی… وہ مردوں کے لباس کی باتیں کریں، ان کے چال چلن کی، کردار کی۔ وہ کہیں کہ فلاں آدمی سالا لوز کیریکٹر کا ہے، سالے کی پتلون کی زپ ہمیشہ نظر آتی رہتی ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ عورتیں موٹی موٹی گالیاں دیں؛ گالیاں دیں باپ کی، بھائی کی، بیٹے کی یا ایسی ہی کوئی گندی گالی جو مردوں کی مردانگی پر ضرب ہو۔۔۔
میں چاہتا ہوں کہ عورتیں بھی بیت الخلا جانے والے مردوں کو سیٹی ماریں، میں چاہتا ہوں کہ عورتیں بھی بیت الخلا جائیں تو دیواروں پر ویسی ہی بھدی گالیاں اور نمبر لکھ آئیں جیسے مرد لکھتے ہیں۔ لڑکوں کو بدنام کرنے کے لیے وہ بھی بسوں کی سیٹوں پر اور باتھ رومز میں لڑکوں کا نام لکھیں ساتھ میں اسکا نمبر لکھیں اور ساتھ ریٹ لکھا ہو کہ یہ سالا ایک رات کا اتنا لیتا ہے۔
میں یہ سب چاہ سکتا ہوں پر ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ عورتیں کبھی ایسا نہیں کرینگی۔۔ کیونکہ عورتیں مرد جتنی گھٹیا نہیں ہوتیں۔۔۔۔
سعادت حسن منٹو
عورت تجھے سلام
قارئین کالم کے بارے میں اپنی رائے 03004741474 پر وٹس ایپ کر سکتے ہیں۔