وزیر اعظم شہباز شریف نے باضابطہ طور پرآئی ایس آئی کوسرکاری عہدیداروں کی بھرتی، تقرر اور تعیناتیوں سمیت ترقیوں سے قبل انکی اسکریننگ کی ذمہ داری سونپ دی ہے۔ سول افسران کی تعیناتی کے حوالے سے ایجنسی کو یہ اختیار دینے پر کئی حلقے بلاوجہ تنقید کر رہے ہیں اورنوٹیفکیشن کے بعد سول بالادستی کا سوال اٹھایا گیا ہے۔ حالانکہ حکومت نے اس فیصلے سے ایک ایسی روایت کو قانونی تحفظ فراہم کر دیا ہے جو پہلے سے موجود تھی لیکن اسے باقاعدہ طور پر پروٹوکول کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن نوٹیفکیشن کے مطابق سول سرونٹس ایکٹ 1973 کے سیکشن 25 کی ذیلی دفعہ نمبر ایک کے ذریعے حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم نے آئی ایس آئی کو تمام سرکاری آفیسرز کیٹیگری کی تصدیق اور اسکریننگ کیلئے اسپیشل ویٹنگ ایجنسی کا درجہ دیا ہے جو وزیر اعظم کو سول بیوروکریسی کیلئے قوانین بنانے یا ترمیم کرنیکا اختیار دیتے ہیں۔بیوروکریٹس کی ترقی کے اوراہم عہدوں پر تعیناتی کے وقت آئی ایس آئی اور انٹیلی جنس بیورو انکے بارے اپنی رپورٹس حکومت اورسینٹرل سلیکشن بورڈ کو بھیجنے کا یہ عمل عرصہ دراز سے جاری ہے۔ اعلیٰ عدالتوں نے ماضی میں کچھ معاملات میں ایسی انٹیلی جنس رپورٹس کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ سول سرونٹ ایکٹ میں ایسی کوئی قانونی شق نہیں جو سرکاری ملازمین کیلئے ایجنسی کی اسکریننگ کو لازمی قرار دے۔چونکہ حکومت نے اب آئی ایس آئی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس کو قانونی تحفظ دے دیا ہے اسلئے اب انکو عدالتوں میں ایک جائز قانونی دستاویز کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ مزید بہتر ہے کہ وزیراعظم اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کوتقرر، ترقی اورتبادلے اے پی ٹی کے قواعد میں ترمیم کیلئے ایک قانونی ریگولیٹری آرڈر ایس آر او جاری کرے، کیونکہ قواعد میں ترمیم نہ کیے جانے تک محض ایک نوٹیفکیشن آئی ایس آئی کی رپورٹ کو قانونی مضبوط حیثیت نہیں دے گااور ایس آر او کے بغیراسے عدالتی جانچ پڑتال کے دوران ایک جائز دستاویز کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔پھر فیڈرل پبلک سروس کمیشن ایف پی ایس سی کے ذریعے بھی سرکاری عہدیداروں کے ابتدائی تقرر میں آئی ایس آئی کی جانب سے جانچ پڑتال کی ضرورت ہے۔ تقرری، تعیناتی یا اعلیٰ عہدوں پر ترقی سے قبل انکی اسکریننگ کرنے کے حکومتی فیصلے کا مقصد کارکردگی کو بہتر بنانا ، بیوروکریٹس اوراعلی سرکاری آفیسرز میں شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر اسپیشل برانچ میں انٹیلی جنس بیورو (IB) کو تقرریوں، پوسٹنگ، ترقیوں کا معائنہ اور جانچ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔حکومت نے اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے سے یہ فیصلہ کیاہے۔ انٹیلی جنس ایجنسیز سے کلیئرنس نہ صرف سرکاری عہدیداروں کی ترقی کے عمل کا ایک لازمی حصہ ہے بلکہ یہ اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔سپریم کورٹ کے جج کی توثیق و ترقی کے وقت چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان انٹیلی جنس رپورٹس پر غور کرتا ہے۔
وزیراعظم کا یہ فیصلہ انتہائی دانشمندانہ ہے ، جس سے کام اورادارے مزید موثر ہونگے۔ آئی ایس آئی سرکاری افسران کی سکریننگ معمول میں کرتی ہے۔ یہ بلینکٹ پالیسی سول سروس اورآئی ایس آئی کے کردار کو مضبوط کرے گی اورجانچ کیلئے آئی ایس آئی کو ریگولر کرے گی جس سے یقینا علاقائی اور بین الاقوامی چیلنجز سے اپنی استعداد سے بہتر طور پر نبردآزما ہو سکیں گے۔ آئی ایس آئی کے معلومات اکٹھی کرنے کے بہتر طریقہ سے مزید بہتری آئیگی، جس سے سول ادارے مضبوط ہونگے۔وسائل کے لحاظ سے بھی آئی ایس آئی مضبوط ہے اورمعلومات اکٹھی کر نے میں بھی آئی ایس آئی،آئی بی سے کئی درجے بہتر ہے۔آئی ایس آئی ایک انتہائی مضبوط اور منظم ادارہ ہے اور معلومات اکٹھی کرنے کا کام آئی بی سے بڑی حد تک بہتر انداز میں کرتا ہے۔افسرز کی تعیناتی کے موقع پر انٹیلی جنس کلیئرنس میں آئی ایس آئی کے باقاعدہ شامل ہونے سے ایسے لوگوں کو بہتر تعینات کیا جا سکتا ہے جو ملک وقوم کے بہتر مفاد میں ہوں۔ دوسری طرف آئی ایس آئی کو یہ اختیار دینے پربلاوجہ تنقید کرنے اورسول بالادستی کا سوال اٹھانے والے حلقوں کو یاد رکھنا ہوگا کہ ماضی میں دو بار افواج پاکستان نے بھرپور ڈسپلن کا مظاہرہ کرتے ہوئے سول بالادستی کو عملاً قائم کیے جانے کی واضح مثالیں قائم کیں جو ریکارڈ پرموجود ہیں، جب پہلی بار1990 میں سابق وزیراعظم بینظیربھٹو کے دورِحکومت میں آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کیاگیا، اورایک ریٹائرڈ جنرل کو آئی آیس آئی کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ دوسری بار اس ضمن میں 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایک نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا اور اس معاملے پر فوج سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی تھی۔ آئی ایس آئی کی ہمیشہ زیادہ تر ذمہ داری ایکسٹرنل انٹیلی جنس اکٹھی کرنے پر رہی ہے تاہم ذوالفقار علی بھٹو پہلے وزیراعظم تھے جنہوں نے اندرونی طور پرانٹیلی جنس جمع کرنے کا مینڈیٹ آئی ایس آئی کو دیا جسکامقصد سیاستدانوں سے متعلق معلومات جمع کرنا تھا لہٰذاجب بھی حکومت نے آئی ایس آئی کو کسی شخص کی ویٹنگ کا کہا تو وہ کر دیتے تھے یاانکے پاس کوئی معلومات ہوتی تو وہ متعلقہ حکام کے ساتھ شیئر ضرور کرتے تھے مگر ایجنسی کے پاس باقاعدہ طور پر ایسے اختیارات نہیں تھے۔ مگراب محض اس سارے عمل کو ریگولرکیا گیا ہے، اور حساس یا سینئر عہدوں پر تعیناتی یا ترقی کیلئے ان سول افسرز کے نام آئی ایس آئی کو بھیجے جائیں گے اورایجنسی انہیں کلیئر کریگی تب ہی انکی تعیناتی ہوگی اوریقینا یہ سول بالادستی میں مداخلت نہ ہوگی۔
وزیراعظم کا یہ فیصلہ یقینا سول بالادستی کیلئے اور سکیورٹی کے تناظر میں ایک اچھاقدم ہے۔ماضی میں بھی وزیراعظم شہباز شریف بطور وزیراعلیٰ کسی بھی افسر کے انٹرویو سے قبل اسکی انٹیلی جنس رپورٹس کے پر مبنی معلومات لیتے تھے جوانکے فیصلوں پر اثرانداز بھی ہوتی تھیں۔اس نوٹیفیکیشن کے بعد اب آئی ایس آئی کی رپورٹس سے شفاف فیصلہ سازی کے عمل میں بہتری آئے گی، کیونکہ کسی بھی ایسے شخص کی تعیناتی آئی ایس آئی کی کلیئرنس کی پابند ہوگی۔ یقیناآخری فیصلہ تو سول حکومت میں موجود سربراہ کا ہی ہو گا۔لہٰذا اگر پاکستان کو شفاف اور جمہوری طور سے آگے بڑھانا ہے تو شفافیت کیلئے سویلین اور افواج کے کردار میں بہتر ربط اورتعاون کی ضرورت ہے۔ یقینا وزیراعظم کا یہ فیصلہ سول بالادستی اور سکیورٹی کے تناظر میں ایک اچھا قدم ہے۔