"پاکستان 3ٹکڑے ، ایٹمی اثاثوں سے محروم ہو جائے گا۔" یہ کسی مجنون کی بڑ نہیں، پاکستان کے کسی دشمن کی دھمکی نہیں، نہ ہی کسی دیوانے کا خواب ہے۔ یہ بزعم خودایک بڑے قومی راہنما،سابق وزیر اعظم جن کا نام نامی اسم گرامی کپتان جناب عمران خان نیازی ہے کے ایک ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں سے لیے گئے الفاظ ہیں۔ جناب عمران خان نے اس انٹرویو میں جو کچھ ارشاد فرمایا ، اس کی تفصیل میڈیا میں آچکی ہے۔ پاکستان کے حوالے سے ایسا بیان ، ایسے الفاظ ، ایسے جملے کوئی بڑا جغادری لیڈر ہی ادا کر سکتا ہے۔ جو یہ سمجھتا ہو کہ میرے لیے ہر بات کہنا جائز ہے خواہ اس کی زد میں ملک و قوم آرہے ہوں ، اس کا نشانہ ملک کی مسلح افواج اور ان کی قیادت بن رہی ہو، اس کا تختہ ستم آئین ، قانون اور نظام حکومت بن رہے ہوں، اس کی بنا پر پاکستان کے ازلی اور ابدی دشمن کے ہاں گھی کے چراغ جلائے جا رہے ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک و قوم کے مختلف طبقات اور ریاستی اداروں میں تفریق ، تقسیم اور دوری کے بیج بھی بوئے جا رہے ہوں۔
جناب عمران خان کو یقینا استثنیٰ حاصل ہے کہ وہ جو منہ میں آئے کہہ دیتے ہیں۔ وہ ریاست مدینہ کا ذکر کرنے لگیں تو اس کے ساتھ ایسی ایسی باتیں جوڑ دیتے ہیں جن کا تصور کرنا بھی سوئے ادب اور محال گردانا جا سکتا ہے۔ وہ صحیح آزادی مارچ کا نام لیکر 25لاکھ کے مجمع کے ساتھ اسلام آباد پر دھاوا بولنے اور وہاں کے ڈی چوک میں اپنے مطالبات کے پورا ہونے تک وہاں سے نہ اٹھنے کے بلند بانگ دعوے کرنے کے باوجود بمشکل 20، 25ہزارافراد ہی اسلام آباد میں جمع کر پائیں اور ڈی چوک تک پہنچے بغیر جناح ایونیو میں خطاب کرکے احتجاج ختم کردیں اور اپنی اس پسپائی کو صلح حدیبیہ کا مقدس نام دیکر اس میں پناہ لینے کی کوشش کریں تو پھر ان کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہـ ؎ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
جناب عمران خان کا یہ وتیرہ چلا آرہا ہے کہ وہ گہرائی میں جا کر سوچے سمجھے بغیر اور ضد ہٹ دھرمی اور انتقامی جذبے کے اپنے انداز فکر و عمل کو تسکین دینے کے لیے ایسی ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں جن کا ایک بڑی قومی سیاسی جماعت کے سربراہ یا چار سال تک ملک کے اعلیٰ ترین عہدے وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے شخصیت سے کسی صورت میں توقع نہیں کی جا سکتی۔ آں جناب نے نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے جن خیالات جن میں ایک دو کا اوپر ذکر آچکا ہے کا اظہار کیا ہے انہیں کسی بھی صورت میں جائز ، مناسب اور قومی مفاد کے مطابق قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ ٹی وی چینل کے ساتھ انٹر ویو میں جناب عمران خان کے ارشادات عالیہ قومی پریس میں شہ سرخیوں سے شائع ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں ایک بڑے قومی معاصر میں اس حوالے سے چھپی خبر کو لیتے ہیں۔ قومی معاصر کی شہ سرخی کے الفاظ ہیں "پاکستان3 ٹکڑے ، ایٹمی اثاثوں سے محروم ہو جائے گا"۔ اس جلی شہ سرخی کے اوپر 6کالموں میں سیاہ بیک گرائونڈ کے ساتھ سفید الفاظ میں اور اس کے نیچے سفید بیک گرائونڈ کے ساتھ سیاہ الفاظ میں جو شہ سرخیاں چھپی ہیں وہ بھی کچھ کم چونکا یا خبردار کرنے والی نہیں ہیں ۔ اوپر کی 6کالمی سرخی کے الفاظ ہیں ـ"اسٹیبلشمنٹ نے درست فیصلے نہ کیے تو خود بھی برباد ہونگے، فوج سب سے پہلے تباہ ، ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔ ان لوگوں کو اقتدار سے نکالنا ہوگا۔" نیچے والی 6کالمی سرخی کے الفاظ ہیں "بلوچستان علیحدہ کرنے کے منصوبے بنے ہوئے ہیں، پاکستان خود کشی کی راہ پر جا رہا ہے ، لانگ مارچ ختم کرنا صلح حدیبیہ تھا"ان شہ سرخیوں پر ہی بات ختم نہیں ہوتی ،خبر کے متن میں جو باتیں لکھی گئی ہیں وہ پڑھ کر جہاں سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے وہاں یہ خیال بھی ابھرتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کیا پہلے بھی کبھی ایسا ہوا ہے کہ اقتدار سے محرومی کے بعد کسی شخص نے ملک و وطن اور قوم کے بارے میں ایسے منفی اور متعصبانہ خیالات کا اظہار کیا ہو، لیکن اس میں زیادہ حیرانی کی بات اس لیے نہیں ہونی چاہیے کہ یہ وہی عمران خان ہے جنہوں نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں اپنی حکومت کے خاتمے اور میاں شہباز شریف کی قیادت میں نئی حکومت بننے کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا کہ اس سے بہتر تھا کہ پاکستان پر ایٹمی سٹرائیک ہو گیا ہوتا۔ خیر خبر کے متن کے مطابق جناب عمران خان کا ارشاد
ہے کہ پاکستان کا مسئلہ اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ ہے اگر اس وقت اسٹیبلشمنٹ صحیح فیصلے نہیں کرے گی تو میں آپ کو لکھ کر دیتا ہوں یہ خود بھی تباہ ہونگے اور فوج سب سے پہلے تباہ ہوگی کہ ملک دیوالیہ ہوگا۔ ان لوگوں کو اقتدار سے نہ ہٹایا گیا تو ملک کے جوہری اثاثے چھن جائیں گے۔ اگر درست فیصلے نہ کیے گئے تو پاکستان کے تین ٹکڑے ہونگے ۔ ملک خود کشی کی راہ پر جا رہا ہے اور بلوچستان کو علیحدہ کرنے کے بیرونی منصوبے بنے ہوئے ہیں۔ خبر میں جناب عمران خان کے انٹرویو کے حوالے سے اور بھی باتیں لکھی گئی ہیں ان کا لانگ مارچ ختم کرنے اور دھرنا نہ دینے کے بارے میں کہنا تھا کہ میں اسے صلح حدیبیہ سمجھتا ہوں۔ اسی طرح اس سوال کے جواب میں کہ اس رات (9اپریل کی رات) کو جب وہ پارلیمنٹ میں جنگ لڑرہے تھے کیا ہوا تھاکے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ تاریخ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتی ، جب پاکستان کی تاریخ لکھی جائیگی تو وہ ایسی رات لکھی جائیگی جس میں ملک کو بہت نقصان پہنچا جو ادارے ملک کو مضبوط کرتے ہیں ان اداروں نے پاکستان کو کمزور کر دیا۔
جناب عمران خان نے اپنے اس انٹرویو میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ ایسے نہیں ہیں جنہیں نظر انداز کیا جا سکتاہو۔ یہی وجہ ہے کہ وسیع پیمانے پر ان کے بارے میں سخت تنقیدی آرا ء کا اظہار سامنے آیا ہے۔ اس ضمن میں یہاں دو شخصیات کی آراء اور خیالات کا حوالہ دیا جاتا ہے ان میں سے ایک حوالہ مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سینٹر جناب عرفان صدیقی کی سینٹ کے ایوان میں اس بارے میں تقریر کا ہے تو دوسرا حوالہ سینئر صحافی ، معروف اینکر اور وی لاگر سید طلعت حسین کے یوٹیوب پر پیش کیے گئے ایک وی لاگ کا ہے۔ جناب عرفان صدیقی اور سید طلعت حسین میرے نزدیک ایسی سنجیدہ خو ، مستند، معتبر باوقار اور قابل قدر شخصیات ہیں جن کے خیالات سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن انہیں رد نہیں کیا جا سکتا۔ بلاشبہ یہ حضرات حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے بڑے سلیقے ،قرینے اور دلیل کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ سینٹر محترم عرفان صدیقی کے سینٹ کے ایوان میں عمران خان کے ٹی وی انٹرویو کے حوالے سے خطاب کوان کی ایک بہترین تقریر قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جناب عمران خان نے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کی سلامتی اور پاکستان کی افواج کے بارے میں جو باتیں کی ہیں وہ انتہائی نامناسب اور حقائق کے منافی ہیں۔ ان کا افواج پاکستان کے بارے میں یہ کہنا کہ اس نے عقل کے ناخن نہ لیے یا درست فیصلے نہ کیے تو پاکستان تباہ ہو جائے گا، فوج تباہ ہو جائیگی اور پاکستان کا ایٹمی پروگرام چھن جائے گاوغیرہ ایسی باتیں ہیں جو ایک سابق وزیر اعظم کو زیب نہیں دیتیں۔اہم بات یہ ہے کہ عمران خان نے یہ نہیں بتایا کہ ان کے نزدیک کونسے ایسے درست فیصلے ہیں جو فوج کو کرنے چاہیے ۔ ان کے دور حکومت میں چار سال فوج جو فیصلے کرتی رہی اور اس سے قبل 2016میں پانامہ کے حوالے سے، 2018میں آر ٹی ایس کا گلہ گھوٹنے کی صورت میں جو فیصلے ہوتے رہے وہ اگر درست تھے تو اب عمران خان کو اپنی حکومت کے آئینی طریقے سے خاتمے کے بعد فوج کے فیصلے برے لگنا شروع ہوگئے ہیں اور انھوں نے ان پر اعتراضات اٹھانا شروع کردیئے ہیں ۔ جناب عمران خان کو کیا یہ پتا نہیں ہے کہ فوج کا کام ہے کہ وہ اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھے ،اب جب فوج نے اپنے حلف کے مطابق اپنے آپ کو اس آئینی کردار تک محدود کر لیا ہے تو عمران خان فوج اور فوج کی قیادت پر طعن و تشنیع کے تیر برسانے لگے ہیں۔ جناب عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ ہماری فوج غازیوں اور شہیدوں کی فو ج ہے جو ہمیں عزیر ہے۔
جناب عرفان صدیقی نے اپنی پر اثر اور خوب صورت تقریر میں اور بھی کئی باتیں کی ہیں لیکن ہم سینئر صحافی، تجزیہ کار اینکر پرسن اور یوٹیوب وی لاگر سے سید طلعت حسین کی طرف آتے ہیں ۔ سید طلعت حسین نے "عمران کے نئے نئے ٹچ" کے عنوان سے STHکے اپنے ایک پروگرام میںعمران خان کے ٹی وی انٹرویو میں پیش کیے ہوئے خیالات کا جائزہ لیا ہے ۔جناب عمران خان نے اپنے ناکام لانگ مارچ کو ختم کرنے کو صلح حدیبیہ سے جو جوڑا ہے اس پر سید طلعت حسین نے عمران خان کو خاص طور پر تنقید کا نشانہ بنا یا ہے طلعت حسین کا کہنا ہے کہ صلح حدیبیہ کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان اس کا صحیح تلفظ بھی ادا نہیں کر سکے وہ اسے صلح حدیبا بولتے رہے اس سے پتا چلتا ہے کہ جناب عمران خان کو اسلامی تاریخ کے اہم واقعات اور ان کے تاریخی پس منظر اور ان سے وابستہ مقدس اورمعتبرک روایات سے سرے سے آگاہی حاصل نہیں ہے اور وہ جس طرح ان کا ذکر کرتے ہیں اور اپنے افعال و کردار کے ساتھ ان کو جوڑتے ہیں وہ ایک لحاظ سے مذہبی تعلیمات کے منافی اور سوئے ادب سمجھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سید طلعت حسین کا کہنا ہے کہ جناب عمران خان کے ٹی وی انٹرویو میں پیش کیے گئے خیالات کو ان کو نئے نئے ٹچ کے بجائے پنجابی کی "کھچ" جس کے معنی فضول اور بے تکی بات ہوتے ہیں کہا جا سکتا ہے۔سید طلعت حسین کے خیال میں عمران خان اگر اسٹیبلشمنٹ کو اپنی شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں تو گویا وہ اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں اگر دو چارتھپڑ بھی پڑ جائیں تو وہ اس کے لیے بھی تیار ہیں۔
سینٹر عرفان صدیقی اور اینکر پرسن سید طلعت حسین کے قابل قدر خیالات اپنی جگہ، ان سے ہٹ کر یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ جناب عمران خان نے اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد جو وتیرہ اپنایا ہے اور جس طرح وہ مستقل ریاستی اداروں اور ان سے وابستہ شخصیات کو اپنی کھڑی تنقید کا نشانہ بنائے چلے جا رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے لیے سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہیں خواہ اس کے لیے ملک وقوم کی سلامتی اور ریاستی اداروں کا وقار اور مستحکم حیثیت بھی دائو پر لگ جائے تو انہیں اس کی بھی کوئی پروا نہیں ہے۔ خدا کے لیے عمران خان اپنے اس منفی رویے میں تبدیلی لے کر آئیں ۔ حکومت اور اقتدار تو آنی جانی چیزیں ہیں لیکن ریاست ہمیشہ قائم رہنے والی ہے۔ریاست پاکستان اور اس کے مستقل ریاستی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانا گویا پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا ہے۔