ملکی صورت حال تاریخ کے بدترین مرحلے میں داخل ہو چکی ہے کہ معیشت کا پہیہ رواں رکھنے میں سخت دشواری کا سامنا ہے۔ قومی خزانہ تیزی سے خالی ہو رہا ہے جسے بھرنے کے لیے عوام پر ٹیکس پر ٹیکس لگائے جا رہے ہیں جس سے ان کی سسکیاں بلند ہونے لگی ہیں۔
پٹرول گیس اور بجلی کی قیمتوں میں خوفناک اضافہ ہو چکا ہے جس سے تمام اشیا خواہ وہ کھانے پینے کی ہوں یا دوسری ان کی قیمت بے بہا بڑھ گئی ہیں کوئی جینے کی راہ دکھائی نہیں دے رہی مگر ہمارے حکمران و اہل اختیار اقتدار کے لیے لڑ بھڑ رہے ہیں ایک دوسرے کے خلاف الزامات کے تیر برسار ہے ہیں۔ کسی کے پاس بھی مسائل سے چھٹکارا پانے کا کوئی حل موجود نہیں۔ عارضی طور سے اگر کوئی بندوبست بھی کیا جاتا ہے تو وہ بھی سود مند ثابت نہیں ہو رہا۔ ایک چیخ و پکار سنائی دے رہی ہے ہر طرف مگر سب جلسے کر رہے ہیں اور جلوس نکال رہے ہیں۔ اپنی اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ انہیں مل بیٹھنا چاہیے تھا اور عوام کو اس مشکل حالات سے نجات دلانے کے لیے سوچ بچار کرنے کی ضرورت تھی مگر ایسا نہیں کیا جا رہا اور باہم دست و گریباں ہوا جا رہا ہے۔ عوام ان سب کے اس عمل کو انتہائی دکھ کے ساتھ دیکھ رہے ہیں کہ انہوں نے ابھی تک ان کے لیے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا۔ اقتدار کے حصول کے لیے یہ ہر حربہ اور ہتھکنڈہ استعمال کر رہے ہیں۔ یوں اذیت ناک منظر ابھر چکا ہے۔ اگرچہ دعوے کیے جا رہے ہیں بیانات جاری کیے جا رہے ہیں کہ ان سخت فیصلوں کے بعد معاشی صورت حال بہتر ہونے کاقوی امکان ہے۔
یہ کیوں سب مل کر یہ فیصلہ نہیں کر لیتے کہ ہمیں روس ایران اور چین سے سستی اشیائے ضروریہ اور تیل گیس لینا ہے تا کہ ملک آگے بڑھ سکے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں مغربی حصار سے باہر نکلنا ہے ان کی ڈکٹیشن کو یکسر نظر انداز کرنا ہے۔ پچھتر برس میں ان کی رفاقت سے کیا ملا یہی کہ تباہی و بربادی۔ ان کی خواہشوں کی خاطر ہی ہر نوع کے بحران آئے ہیں اور اب وہ شدید ہو چکے ہیں مگر ہمارے حکمرانوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی وہ مسلسل اس کی آشیر باد لینے پر مصر ہیں انہیں نجانے کیوں ابھی تک یہ یقین نہیں آرہا کہ وہ تنہا بھی کچھ کر سکتے ہیں یا پھر انہیں سب
معلوم ہے مگر وہ مغرب ہی کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھائے رکھنا چاہتے ہیں۔ جبکہ ملک دیوالیہ ہو رہا ہے عوام کا برا حال ہو گیا ہے۔ سیاسی اعتبار سے بھی ہم بہت پیچھے جا چکے ہیں کہ اب سیاست نہیں ہو رہی ایک کاروبار ہو رہا ہے جو کوئی آتا ہے وہ مال بنانے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ بدعنوانی کے نت نئے ریکارڈ قائم کرنے لگ پڑتا ہے۔ کس کس کا نام لیں اور کس کا نہیں آوے کا آوا ہی بگڑ چکا ہے۔ اب کوئی اسے ٹھیک کرنا بھی چاہے تو مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہو گا ہاں البتہ انقلاب لا کر اس بگاڑ کو درست کیا جا سکتا ہے مگر انقلاب لانے کے لیے پہلے تیاری کرنا پڑتی ہے۔ باقاعدہ تھنک ٹینک کا موجود ہونا لازمی ہوتا ہے جو انقلاب کے ثمرات کو براہ راست عوام تک پہنچا سکے پھر ان قوتوں کا مقابلہ کر سکے جو انقلاب کی راہ میں حائل ہونا چاہتی ہوں یہاں تو کوئی ایک بھی بڑی سیاسی جماعت ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تمام سیاسی جماعتیں اور حلقے ’’سٹیٹس کو‘‘ کے زبردست حامی ہیں وہ کسی صورت نہیں چاہتے کہ موجودہ صورت حال تبدیل ہو کیونکہ بات صاف اور سیدھی ہے کہ جب انقلاب آتا ہے تو وہ ایک نظام کو بدل ڈالتا ہے اور اس کی جگہ نیا نظام لے آتا ہے جو بنیادی انسانی حقوق کا دفاع کرتا ہے اس میں بڑی بڑی جائیدادیں محل دولت کے انبار جہاں بھی ہوتے ہیں ریاست و عوام کی ملکیت میں چلے جاتے ہیں عیاشیاں جو اہل اقتدار میں رچ بس گئی ہوتی ہیں ختم ہو جاتی ہیں قومی سرمایے کا ذاتی تجوریوں میں منتقل ہونے کا سلسلہ رک جانا ہے اور عوام خوشحالی کے راستے پر گامزن ہو جاتے ہیں لہٰذا ہماری اشرافیہ یہ سب نہیں چاہتی یہی وجہ ہے کہ عوام ابھی تک حالتِ اضطراب میں ہیں انہیں سیاسی اور معاشی طور سے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں تو ناقابل بیان حد تک حالات خراب ہونے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے کیونکہ اشیائے روز مرہ کو گویا آگ لگ جائے گی انہیں چھونا تک بے حد مشکل ہو جائے گا مگر کیا کہنے ہمارے حکمرانوں کے اور ان کے ہمدردوں کے ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی وہ خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔
انہیں لینے بھی چاہئیں ان کا عوام سے رشتہ ہی کیا انہیں تو آئی ایم ایف ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں کو راضی رکھنا ہے کیونکہ ان کے سر پرست انہیں راضی رکھتے ہیں پھر ان تمام بڑوں کی بیرونی ممالک میں ڈھیروں دولت پڑی ہے وہاں ان کے سیکڑوں ہزاروں ایکڑ میں خواب گاہیں ہیں لہٰذا عوام آپس کی کدورتیں اور نا راضیاں ترک کریں اور اپنے بارے میں غور کریں یہ سیاسی جماعتیں انہیں استعمال کر رہی ہیں بیوقوف بنا رہی ہیں انہیں قرضے واپس کرنے کے لیے زندہ رکھ رہی ہیں خود کھربوں ہڑپ کر رہی ہیں انہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں یہ صرف اور صرف عوام پوچھ سکتے ہیں لہٰذا وہ اپنے آئینی حقوق کے حصول کے لیے صدائے احتجاج بلند کریں ان کے گھروں میں آج کل جو آنسو بہہ رہے ہیں ان کا تقاضا ہے کہ وہ حکمران طبقات کو کھل کر کہیں کہ ان کا حق ایتھے رکھو بہت ہو گیا پچھتر برس تک وہ سیاہ و سفید کے مالک رہے ہیں اب عوام کو آگے آنے دیا جائے تا کہ وہ بھی خوشحالی کی زندگی بسر کر سکیں مگر ایسا نہیں ہو گا کیونکہ ہر کوئی چاہتا ہے کہ کوئی ان کا درد بیان کرے ان کو ریلیف دلوائے۔
بہرحال روشن مستقبل دیکھنے والی آنکھیں تھک گئی ہیں ان کی روشنی ماند پڑتی جا رہی ہے انہیں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دینے لگا ہے۔ نجانے ان کا جرم کیا ہے ان کا قصور کیا ہے انہوں نے تو ہمیشہ اہل اختیار و اقتدار کی ہاں میں ہاں ملائی ہے انہوں نے کاں چٹا کہا تو انہوں نے بھی کہا‘ ہاں کاں چٹا ہے مگر یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ انہیں محروم منزل رکھا گیا ان کے سپنوں کو چکنا چور کیا گیا وہ ایک ایک نوالے کے لیے ترس گئے اور اشرافیہ نے بے دریغ ان کے حصے کی دولت ہتھیالی آج وہ شاہوں کی سی زندگی بسر کر رہی ہے اور ان پر (عوام) مہنگائی کا ہتھوڑا برسا رہی ہے اور یہ سلسلہ دہائیوں سے جا رہی ہے جن سے وطن عزیز بھاری ترین قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے جنہیں اتارنے کے لیے کسی کے دماغ میں کوئی تجویز نہیں اور جو ہے وہ ہے ٹیکسوں کا طوفان جسے برپا کر کے عوام کی رگوں میں سے آخری خون کا قطرہ کشید کرنا۔ دکھ جھیلے بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں۔ ساری مصیبتیں جھیلیں عوام اور اشرافیہ موجیں کرے مگر آخر کب تک ہر عمل کا ردعمل ضرور ہوتا ہے کہ عوام آج پریشان ہیں تو کل ضرور مسکرائیں گے کیونکہ ایک حالت کبھی بھی موجود نہیں رہتی بدل جاتی ہے لہٰذا یہ خوف کی فضا جس نے ہر کسی کو سہما دیا ہے باقی نہیں رہے گی پھر بلبلیں بھی اپنی بولیاں بولیں گی اور فاختائیں بھی خوشی کے گیت گائیں گی بس ذرا روشنی کو پھیلنے دو!