گزشتہ روز شام 6بجے کے قریب میرے بیٹے محمد سلمان نے مجھے فون پر اطلاع دی کہ پاپا پھوپھو کا بیٹا عرفان ایک حادثہ میں فوت ہو گیا ہے … عرفان، نوجوان بچہ، تین معصوم بچوں کا باپ، ماں کا لاڈلا، خاندان کا پیارا اور موت نہیں … میرا دل نہیں مان رہا تھا۔ میں نے دوبارہ پوچھا بیٹا عرفان … وہ بولا: ہاں پاپا عرفان …
پھر جب اس کی میت میرے سامنے تھی تو یوں لگا وہ سو رہا ہے اور سلمان کو کسی نے غلط اطلاع دی کہ عرفان فوت ہوگیا ہے … میں سوچ رہا تھا کہ بے ہنگم ٹریفک، غلط ڈرائیونگ اور ٹریفک پولیس کی لاپروائی سے کتنے عرفان اپنی ماؤں، بہنوں اور بھائیوں سے جدا کر دیے جاتے ہیں۔ نجانے کتنے عرفان اپنی جوانی میں اپنے بچوں کو یتیمی کا پروانہ تھما کر اس جہاں سے دوسرے جہاں پہنچا دیئے جاتے ہیں۔ یہ تو ایک عرفان موت کی وادیوں میں چلا گیا اور آنے والے دنوں، مہینوں اور سالوں میں نجانے کئی اور عرفان ان سڑکوں پر موت کے حوالے کیے جانے والے ہیں۔
عرفان کی یہ موت جس کی کوئی ذمہ داری نہیں لے گا۔ نہ ٹریفک پولیس، نہ قانون،نہ وہ آنکھیں جو عرفان کو موت کی طرف جاتا ہو ادیکھ رہی تھیں۔ سنا ہے کہ ڈرائیور کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ سنا ہے کہ اس کے خلاف ایف آئی آر کاٹ دی گئی ہے۔ سنا ہے کہ وہ تھانے میں ہے۔ یہ سب بکواس ہے۔ کیا مارنے والے کی گرفتاری اس کے خلاف کٹی ایف آئی آر کیا عرفان کو واپس لے آئے گی؟ وہ ڈرائیور آج نہیں تو کل ضمانت پر باہر آجائے گا، یہ ہمارا قانون ہے کہ وہ مجرم کو پناہ دیتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عرفان کا قاتل ڈرائیور جو آزاد ہو کر کیا اور عرفانوں کو نہیں مارے گا؟ وہ مارے گا، اس لیے کہ ہمارا قانون کمزور ہے۔اور ضمانت کی شکل میں قانون اس کو تحفظ دے چکا ہے۔
بات ہورہی تھی عرفان کی جو موت کی وادی میں چلا گیا، کیوں گیا؟ وجہ اوپرکے کالم میں بتا دی۔ یہاں عرفان کے بھائی عمران کی بھی بات سنتے ہیں جس کو خدا نے موت کے منہ سے نکال کر خاندان کو ایک بہت بڑے سانحے سے بچا لیا۔ عمران اپنے بھائی عرفان کے ساتھ تھا۔ جب ایک موت بانٹنے والے ٹرالے نے عرفان کی موت کی سند لکھی میں نے عمران سے موقع کے حوالے سے بات کی تو اس نے ایک اور المیہ میرے سامنے رکھ دیا، وہ المیہ کیا تھا یہ وہ المیہ ہے جس کو ہم معاشرے کی بے حسی کے نام سے پکارتے ہیں۔
عمران کیا کہہ رہا تھا!
بھائی جان ٹرالے نے پہلے ہمیں ہٹ کیا اور میں دائیں جانب گرا جبکہ وہ عرفان کو اپنے ساتھ گھسیٹ کر لے جارہا تھا۔ بہرحال جب ٹرالا رْکا تو میں نے اپنے بھائی کو ٹائر کے نیچے سے نکالنے کی کوشش کی جوکامیاب نہ ہوئی تو وہاں کے ساتھ تین بندوں جب عرفان کو اس کو ٹائرکے نیچے سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے تو میں نے ہر گاڑی والے کو ہاتھ جوڑ کر روکنے کی درخواست کی کہ خداراً میرے سوہنے ویر کو ہسپتال پہنچا دو، وہ التجا کررہا تھا۔ امیرزادوں سے جو گاڑیوں میں بیٹھے میری بے بسی تو دیکھ رہے تھے مگر میری مدد کو کوئی نہیں آرہا تھا۔
عمران کو شاید یہ معلوم نہیں کہ ہم انسانوں کے معاشرے میں نہیں رہتے۔ اس کو شاید یہ نہیں معلوم تھاکہ وہ جس معاشرے کا مکین ہے وہاں کے لوگ بے حس اور زندہ لاشیں ہیں جن کی نہ آنکھیں نہ کان نہ زبان ہوتی ہے۔ عمران کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ جن لوگوں کو مدد کے لیے پکار رہا ہے۔ ان کے اندر ہمدردی والے دل نہیں ہوتے۔ دولت مند دلوں کو کیا خبر کہ انسانیت کیا ہوتی ہے کس طرح دکھی انسانیت کی خدمت کی جاتی ہے اور کس طرح ہاتھ جوڑ کر مدد کی آواز دینے والے کس قدر برے لگتے ہیں کہ وہ تواے سی گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ امیرزادوں کا یہ دکھ نہیں ہے کہ سڑک پر کس ماں کے جگر گوشے کی لاش پڑی ہے، کس بھائی کس باپ اور کس بہن کے دلارے کی لاش کیوں پکاررہی ہے۔
موت تو برحق ہے، اس کو تو آنا ہے۔ یہ میرے پیارے نبیوں اور پیغمبروں کو بھی ساتھ لے گئی۔ ہم تو اس موت کی مٹی کے ذرے کے برابر بھی نہیں۔ مگر اے موت آنے سے پہلے یہ سوچ لیا ہو گا کہ یہ اکیلے عرفان کی موت نہیں تھی، یہ تو ایک گھرانے کی موت نہیں تھی، یہ ایک خاندان کی موت نہیں تھی، یہ موت تو ان تین معصوم بچوں کو تمام عمر کا روگ دے گئی، اس کی وجہ بیوہ کا روگ دے گئی ۔یہ موت اس کی بوڑھی ماں کو تمام عمر کے لیے غم موت دے گئی …پہلے کیا بیٹی عمرانہ کا غم تھا کہ اب عمرانہ کے پیچھے عرفان بھی چلا گیا۔
خداتعالیٰ پورے خاندان کو صبر عطا فرمائے اور عرفان میں تیرے لیے یہی کہوں گا کہ…
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے