یہ صرف لکھنے والاہی جانتا ہے کہ تحریر میں تازگی، شگفتگی تاثر اور انشاء پردازی کے تقاضے چاردن بھی نبھانا کس قدر مشکل ہے چہ جائیکہ یہ نصف صدی کا قصہ ہو، بندہ مجلسی زندگی میں بھی اپنی مثال آپ ہو اولا دکوبھی اعلیٰ تعلیم یافتہ بنائے زوجہ بھی خوش اور دوست تو جیسے نہال ہوتے چلے جائیں۔
فلیٹز کے ہال میں کتاب ’’مشاہیر کے خطوط بنام عطاء الحق قاسمی کی تقریب میں چوٹی کے کالم نگار اینکرز شاعر ادیب اور احباب شریک تھے سٹیج پر جیسے تمام چینلز اکٹھے ہوگئے ہوں وہ جگمگاتے ستارے جنہیں دیکھنے سننے کے لیے لوگوں کو ریموٹ گھمانا پڑتا ہے بیک وقت ایک ہی فریم میں موجودتھے حسن نثار، حامدمیر، رؤف کلاسراڈاکٹر نجیب پرویز رشید اور مجیب الرحمان شامی مختلف آرا لوگوں کا ایک ہجوم جو تمام تر نظریاتی اختلاف سمیت یہ اعلامیہ جاری کررہا تھا کہ عطاء الحق قاسمی عہد حاضر کے سب سے بڑے کالم نگار ہیں اس طے شدہ امر کے بعد تقریب میں موجود اکابرین میں سے چند تقریریں تو تاریخی بن گئیں حامد میر نے انتہائی تجزیاتی انداز میں خطوط بنام عطاء الحق قاسمی کے ان پہلوئوں کو دیکھا جو باقی مقرر نہ دیکھ سکے بالکل ویسے ہی جیسے وہ سب سے الگ تھلگ الگ زوایہ سے زندگی سے بھرپور ٹاک شو کرتے ہیں شرارت ذہانت کے ساتھ مل کر انہیں صحیح معنوں میں ممتاز کرتی ہے کہا کہ خطوط کے مطالعہ سے مجھے لوگوں کے ذہن، ظرف اور دنیاداری بھی دیکھنے کو ملی کشورناہید کے تین خطوط کا حوالہ دیا جس میں کشور نے تینوں مرتبہ عطا صاحب کو بحیثیت کولیگ کبھی ڈیئر کبھی عطا اور کبھی دوستانہ انداز میں پکارا ہے ایسے میں افتخار عارف صاحب نے بتاریخ حوالہ انہیں ڈیئر عطا کہہ کر مخاطب کیا بعدازاں عطا صاحب سفیر بھی بنے تو طرز تخاطب گرامی قدر ہوگیا عطاصاحب حامد میر کو دوستوں کے حوالے سے ’’شرلیاں‘‘ چھوڑنے سے روکتے رہے مگر جو چھپ جاتا ہے وہ قاری کا اثاثہ بن جاتا ہے ویسے بھی حامد کہاں رکنے والے تھے نواز شریف شہباز شریف کے خطوط کو شامل کیے جانے پر پرویز رشید سے پیشگی معذرت کے ساتھ کہا کہ یہ دونوں بھی مشاہیر میں شامل ہوگئے۔
پرویز رشید نے اپنے دھیمے مخصوص انداز میں نکتہ دانی کی کہاکہ میں شاید کتاب خطوط فلاسفی ودیگر امور کے باعث نہیں آیا میں عطا کا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں کہ ہربار جب میرے اثاثے شائع ہوتے تو مجھے دنیا کا سب سے زیادہ مفلس انسان سمجھا جاتا عطاء کے سبب مجھے چارکروڑ کا جرمانہ ہوا تو لوگوں نے مجھے عزت دینا شروع کردی بات میں نکتہ ضرورتھا مگر سب جانتے ہیں کہ پرویز رشید پر اثاثے بنانے کا الزام لگ ہی نہیں سکتا کہ وہ اپنے قول وفعل میں تضاد نہیں رکھتے۔
پورا خاندان آرٹ، موسیقی اور ادب کی محبت میں ڈوبا ہواہے وہ اثاثہ فن ثقافت کے امین ہیں اس لیے کرنسی سے رغبت نہیں۔
مجیب الرحمن شامی حسن نثار رئوف کلاسرہ نے کتاب مشاہیر کے خطوط کو عطا الحق قاسمی صاحب کو ادب کی تاریخ مرتب کرنے جیسا عمل کہا اس ضمن ڈاکٹر عائشہ عظیم جو پہلے دائود رہبر جیسے مفکر پر کام کرچکی ہیں خطوط کی تدوین وتالیف جیسا مشکل ذمہ اٹھایا اور اسے یہ انجام دے کر مکمل کیا جس کے اعتراف میں اس قدر خوبصورت تقریب منعقد ہوئی اور ستاروں کی کہکشاں سجی عزیز احمد نے حق میزبانی ادا کردیا عطا صاحب کے قابل فخر صاحب زادگان عمر قاسمی اور یاسر پیر زادہ کی شرکت نے محفل مزید سجادی ۔یہ پہلی تقریب تھی جس میں بطور ناظرین وسامع کثیر تعداد میں صف اول کے ادیب شریک تھے ۔خواتین رائٹرز کی بڑی تعداد تشریف لائی۔ فائزہ بخاری نے نہایت عمدگی سے نظامت کے فرائض نبھائے پرتکلف چائے کا اہتمام رہا …
سوئے اتفاق کہ گزشتہ دنوںسے ’’غبار خاطر‘‘ پڑھ رہی تھی مولانا ابوالکلام آزاد کے قلم کا جادو سرچڑھ کر بول رہا تھا عربی فارسی حافظ شیرازیا القابات کا جہان کشمیر کا بوٹ ہائوس ناسا زی طبع سگریٹ کا شوق دمہ اور تکالیف اسیری اور دربدری مگر کیا ہے کہ قلم کا سحر نہیں ٹوٹ رہا۔
لکھتے ہیں ’’صدیق مکرم‘‘ زندگی کے بازار میں جنس مقاصد کی بہت جستجوئیں کی تھیں لیکن اب ایک نئی متاع کی جستجو میں مبتلا ہوگیا ہوں یعنی اپنی کھوئی ہوئی تندرستی ڈھونڈ رہا ہوں معالجوں نے وادیٔ کشمیر کی گل گشتوں میں سراغسانی کا مشورہ دیا تھا… متاع گم گشتہ کا سراغ نہ ملنے پر کہتے ہیں
نکل گئی ہے وہ کوسوں دیار حرماں سے
سوچ رہی تھی مکتوب نگاری بھی تو جنس نایاب ہوئی اب کون خط لکھے گا اور کون پڑھے گا سب کجھ تو الیکٹرک سلیٹ پر منتقل ہورہا ہے اور مٹ رہا ہے اتنی تیزی سے جذبات اپ لوڈ نہیں ہوتے جتنی تیزی سے ڈیلیٹ ہوجاتے ہیں۔ زندگی ایسی ہونے سے قبل ہمیں اپنے رنگ برنگے ’’رقعوں ‘‘ کی بہاردکھا گئی ہے وہ ’’چڑی چھکا‘‘ میں رقعہ مطلوبہ آنگن تک پہنچانا اور اگر وہی رقعہ غلط ایڈریس پر گرگیا تو طلاق بھی غلط ایڈریس پر ہوجاتی رقعے، تعویذ، دھاگے پکڑے جاتے خط لکھتے وقت صرف لکھنے والا اور جسے مخاطب کیا جائے موجود ہوتے ہیں مگر ادیبوں کے خطوط اس مروجہ دائرے سے نکل کر طشت ازبام اس لیے ہوجاتے ہیں کہ ادب ہمیشہ اچھی تحریروں کا پیاسا ہوتا ہے …
مجھے ’’غبارخاطر‘‘ سے مشاہیر کے خطوط تک پیاس ہی پیاس کا صحرا لگا جس پر کبھی کچے گھڑے کے تپکا تپکا گرتے ٹھنڈے میٹھے احساس نے لبھایا تو کبھی وقت کی کاریگری نے رلادیا سراج منیر، آئی کے گجرال ،منیر نیازی سیاست دان شعراء احباب کس کس زمانے میں کیسے کیسے پیراہن اوڑھ لیتے ہیں ان کے رنگ دیکھنے کا بہترین طریقہ تحریروں میں دکھتا ہے خصوصاً خطوط میں انسان بہت براہ راست اور بے ساختہ ہوتا ہے احمد ندیم قاسمی صاحب کے افسانوں سے ہٹ کر زندگی کے سودوزیاں پر مکتوب عطاء صاحب کی متوازن وبے ساختہ شخصیت کی عکس نگاری کرتے ہیں … یہ کتاب نہیں ایک چمن ہے اور ان رنگ برنگ پھولوں بھرے چمن کی چمن بندی کرنی والی ڈاکٹر عائشہ عظیم مبارکباد کی مستحق ہیں۔
غالب کے خطوط کی خوشہ چینیوں میں جب پڑھتے ہیں ’’ میں غربت نہیں تعیشات میں کمی پر پریشان ہوں ‘‘ تو جیسے آئندہ سامنے آجاتا ہے … کون کھلتا اس انداز میں اگر مکتوب نگاری کی سطریں ہم تک نہ پہنچیں میں دور حاضر کے سب سے بڑے کالم نگار جناب عطا الحق قاسمی صاحب کو سچے دل سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے درازی عمر کی دعا کرتی ہوں اس ضمن میں ان کی ایک سالگرہ پر ظفر اقبال صاحب نے’’ فل ‘‘ شرارتی قطعہ پڑھا تھا میرا یہ مقام نہیں کہ دہرائوں کبھی خود ہی عطا صاحب لکھیں گے …
حرف آخر… غالب
پھر چاہتا ہوں نامۂ دلدار کھولنا
جاں نذر دلفریبی عنوان کیے ہوئے