" مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی" کے مترادف ملک معاشی اعتبار سے گراوٹ کا شکار ہوتا ہی جارہا ہے۔پیٹرول، بجلی اور روزمرَّہ زندگی میں استعمال کی جانے والی اَشیاء صرف کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ نہ صرف غریب بلکہ متوسط طبقے کے لئے بھی سوہانِ روح بنتا جارہا ہے۔ملک کے اَشرافیہ نہ پہلے پریشان تھے اور نہ ہی آج۔ کیونکہ مال و دولت کی فراوانی اْنہیں ہر شئے سے لاپروا کیے ہوئے ہے۔ سو ہر طرف افراتفری کی کیفیت نظر آرہی ہے۔ بجلی کا شارٹ فال آٹھ ہزار میگا واٹ سے بھی بڑھ چکا ہے۔ لہٰذا نہ صرف صارفین بلکہ انڈسٹریز کو بھی بجلی کی مسلسل فراہمی معطل ہوچکی ہے۔ کئی کئی گھنٹوں کی اعلانیہ و غیر ا علانیہ لوڈ شیڈنگ اب معمول بن چکی ہے۔ نہ گھر میں سکون ہے اور نہ ہی باہر۔ بڑھتی ہوئی ناگفتہ بہ مہنگائی کے نتیجے میں معاشرتی و سماجی بے راہ روی میں اضافہ ہو رہا ہے، سٹریٹ کرائمزکا تناسب پہلے سے زیادہ بڑھ چکا ہے۔مہنگائی کے نام پر رشوت کا ریٹ بھی بڑھادیا گیا ہے۔ پہلے جو کام دس بیس ہزار میں ہوجایا کرتا تھا،اب اْس کے لئے لاکھ لاکھ کا مطالبہ ہوتا ہے۔ اَل اَمَانْ وَالحَفِیظْ۔
اَربابِ اقتدار اِس معاشی گراوٹ کو قابو میں لانے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر نت نئے فیصلے کررہے ہیں، کبھی ٹیکس کی شرح میں اضافہ ،تو کبھی پیٹرول، بجلی اور گیس کی قیمت میں ناقابلِ یقین حد تک اضافہ کررہے ہیں۔ لیکن معاملہ تب بھی جوں کا تْوں ہے۔ ٹس سے مَس نہیں ہورہا ہے۔ گویا کہ ملک کو ایک لیبارٹری بنادیا گیا ہے۔
اب سوچنا یہ ہے کہ موجودہ حالات تک پہنچنے کے پیچھے محْرِّکات کیا ہیں؟ کیا یہ سب کچھ اچانک ہوگیا یا یہ عرصہ دراز سے چلنے والے عاقبت نااندیش فیصلوں کا شاخسانہ ہے۔ ملکِ خدادا کو اِس نہج تک پہچانے میں کیا صرف اَربابِ اقتدار ہی کا کردار ہے یا معاشرے کے تمام طبقے کم یا زیادہ اِس زبوں حالی کے ذمہ دار ہیں؟ تواِن اِستفسارات کا سادہ سا جواب یہی ہے کہ ملک کو اِس نوبت تک پہچانے میں ملک کے تمام طبقوں کا کچھ نہ کچھ کردار ضرور ہے۔قرآنِ مجید دو ٹوک اور واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ "اور تمہیں جو مصیبت پہنچی، وہ اس کے سبب سے ہے، جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور بہت کچھ تووہ (اللہ تعالیٰ) معاف فرمادیتا ہے،(سورہ شوریٰ، آیت نمبر:53)"۔ اِسی طرح ایک اور مقام پر ہے:" خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہوگیا،اْن برائیوں کی وجہ سے ،جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمائیں تاکہ اللہ اْنہیں اْن کے بعض کاموں کا مزہ چکھائے تاکہ وہ باز آجائیں، (سورہ روم،آیت نمبر:41)۔لہٰذا اگرکچھ سیاستدانوں نے ملک کو مالِ غنیمت سمجھ کر لوٹ کراْس لوٹی ہوئی دولت کو دوسرے ممالک منتقل کیا، تو کیا کارخانہ داروں نے کاروبار کو ملک کی خدمت کا ذریعہ بنانے کے بجائے ناجائز منافع خوری کو اپنا مطمع نظر نہیں بنایا؟۔ بیوروکریسی کی کالی بھیڑوں نے رشوت ستانی کو فروغ دے کر میرٹ کا کھلم کھلا قتلِ عام نہیں کیا؟۔ علماء کرام نے "اَمر بِالِ معروف"پر عمل پیرا ہوتے ہوئے لوگوں کو نماز روزے اور
حج کی تلقین تو کی لیکن کیا"نَہِی عَنِ المْنکَرِ" کی ذمہ داری کما حقہ پورا کرتے ہوئے سودخوروں، راشی افسروں اور ملک میں لوٹ کھسوٹ کے بازار گرم کرنے والوں کے خلاف مسجد و محراب سے باہر آکر عملی اَقدامات کئے؟ یہاں لوگوں کو سادگی اور کفایت شعاری کا درس دینے والا کون ہے؟سوسائٹی کلچر کے نام پر ملک کی زرعی زمینوں کو بے رحمی کے ساتھ تہس نہس کیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے ملک غذائی قلت کا شکار ہوچکا ہے، کیا کسی نے اِس کے سدِّباب کے لئے عملی اِقدامات اْٹھائے؟ ہماری عدالتوں سے کتنے لوگوں کو بروقت اور اْن کے حق کے مطابق عدل مل رہا ہے؟ ڈاکٹری مسیحائی کے بجائے تجارت بن چکی ہے، سکولوں کا معیار تعلیم کے بجائے فیسوں سے جانچا جاتا ہے۔ کالجز او ر یونیورسٹیز میں محْبِ
وطن افراد پیدا ہونے کے بجائے ٹک ٹاکرز اور ماڈلز پیدا ہورہے ہیں۔ الغرض ہر طرف آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ بقولِ شاعر
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
پھر ایسے حالات میں ملک کیسے تباہی سے بچ سکتا ہے۔ ہر ایک اپنے گریبان میں جھانکے اور پھر اپنا اِحتساب کرے، اپنی اصلاح کرے، جب قوم کا ہر فرد اپنی انفرادی اصلاح کی طرف توجہ دے گا، تو پھر اِس کے اِجتماعی نتائج مرتب ہوں گے۔ آج ملک بیرونی طاقتوں سے زیادہ اندرونی طاقتوں کا شکار ہے۔ہم خود ہی اپنے دشمن بن چکے ہیں۔ قرآن کہتا ہے :"اور تم خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں مت پڑو"۔آئیے مل کر اِس تباہ حال گلستاں کو پھر سے ثمرآور بنائیں۔ کیوں قرآنِ میں ہے: " بیشک اللہ کسی قوم سے اپنی نعمت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں(سورہ رعد:آیت :21)"۔
نوٹ: (مضمون نگار نے اپنی ذاتی حیثیت میں یہ مضمون تحریر کیا ہے، کسی ادارے کا اِس سے کوئی تعلق نہیں۔)