عمران خان نے کہا ہے کہ اگر انھیں دیوار سے لگایا گیا تو وہ سب کچھ بتا دیں گے تو میرے محترم آپ پہلے کون سا کچھ چھپا رہے ہیں ۔دوسروں کو غیر ملکی سفیروں سے ملاقاتوں کے طعنے دینے والے خان صاحب نے اب برطانوی ہائی کمشنر سے خود ملاقات کی ہے اسے کہتے ہیں قول و فعل میں سچا ہونا ۔تحریک انصاف کی قیادت کے ساتھ کچھ مسائل ہیں اور یہ مسائل اس کی مخصوص سوچ کی وجہ سے ہیں ۔کچھ تو یہ بھی ہے کہ عمران خان نے جس طرح کی زندگی گذاری ہے اس کے بعد ان کی سوچ ایک خاص قسم کے سانچے میں ڈھل چکی ہے کہ وہ دوسروں سے برتر شخصیت کے مالک ہیں لہٰذا وہ جو بھی کہتے ہیں یا کرتے ہیں اس میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیںبلکہ ان کے قول و فعل پر جو انگلی اٹھانے کی جسارت کرتا ہے در حقیقت وہ خود غلط ہوتا ہے ۔ آپ کسی ماہر نفسیات کے پاس جائیں اور اس سے اس قسم کی کیفیت زدہ شخص کے متعلق پوچھیں تو وہ آپ کو بتا دے گا کہ خبط عظمت میں مبتلا شخص کی سوچ کو اگر حالات و واقعات کا سہارہ مل جائے تو اس کی خود پسندی وقت کے ساتھ خود پرستی میں بدلتی چلی جاتی ہے اور لگ ایسے رہا ہے کہ خان صاحب بھی اسی کیفیت کا شکار ہو چکے ہے شروع دن سے اگر ان کی ذات میں خبط عظمت کا مسئلہ نہ ہوتا تو وہ یقینا مثبت انداز میں سوچتے کہ دنیا میں ایک وہی نہیں ہیں کہ جنھوں نے اپنے ملک کے لئے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا ہے بلکہ ان کے علاوہ بھی اور ان سے اچھے کرکٹر ہیں کہ جنھوں نے ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو مرتبہ ورلڈ کپ جیت کر ملک و قوم کا نام روشن کیا ہے جس میں ویسٹ انڈیز کے مایہ ناز کپتان کلائیو لائڈ کا نام کرکٹ کی تاریخ میں ہمیشہ روشن حروف سے لکھا جائے گا ۔ اس کے علاوہ پڑوسی ملک ہندوستان کے کپل دیو نے بھی اپنے ملک کے لئے ورلڈ کپ جیتا تھا لیکن ضروری نہیں کہ جو بندہ کسی ایک شعبہ میں کامیاب ہو وہ دوسرے شعبہ میں بھی ویسی ہی کارکردگی دکھائے ۔ اس حوالے سے امیتابھ بچن ایک بہترین مثال ہیں کہ اداکاری کے میدان ان کا دور دور تک کوئی ثانی نہیں لیکن جب وہ سیاست میں آئے تو اس بری طرح ناکام ہوئے کہ توبہ کر کے ہمیشہ کے لئے میدان سیاست کو چھوڑ دیا ۔
خان صاحب خبط عظمت کے تحت جس خود پسندی بلکہ خود پرستی کی کیفیت کا شکار ہیں ان کی اس ذہنی کیفیت کا اثر ان کی اپنی جماعت پر بھی پڑا ہے اور وہ بھی اسی ذہنی کیفیت میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں کہ جس کا شکار خان صاحب ہیں ۔دو تین دن پہلے خان صاحب کی اہلیہ کی ایک مبینہ آڈیو ٹیپ میڈیا پر وائرل ہوئی ۔ اب حالت یہ ہے کہ کوئی اس کا انکار نہیں کر رہا بلکہ وہی مکاری والے ہتھکنڈے کہ تحریک انصاف نے خان صاحب کی اہلیہ اور وزارت عظمیٰ کے دور میں ان کے پرنسپل سیکریٹری کی نجی گفتگو ٹیپ لیک کے معاملہ پر سپریم کورٹ کو نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے ۔یعنی ٹیپ کی تردید بھی نہیں ہے اور غداری بیانیہ بھی جاری ہے۔کچھ اطلاعات کے مطابق ڈونلڈ لو کے معاملہ پرامریکہ سے مٹی پائو فارمولہ پر بھی بات ہو رہی ہے ۔ کہتے ہیں کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی ۔ یقین جانیں کہ سیاست کے سینے میں بیشک دل نہیں پتھر ہی ہوتا ہے لیکن اگر مریم نواز کو جیل میں ان کے والد کے سامنے گرفتار نہ کیا ہوتا اور آدھی رات کوکراچی کے ایک فائیو سٹار ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑ کر کیپٹن صفدر کو گرفتار نہ کیا گیا ہوتا اور 60ساٹھ سے زائد عمر میں فریال تالپور کو انتقام کی نیت سے اگر پابند سلاسل نہ کیا گیا ہوتا تو سیاست کے سینے میں پتھر ہونے کے باوجود بھی ایسی آڈیو ٹیپس کی حقیقت کو منظر عام پر لانے والوں کو سو نہیں بلکہ ہزار بار سوچنا پڑتا لیکن کیا کریں تحریک انصاف نے اپنے دور حکومت میں ماسوائے انتقامی سیاست کے کچھ اور کیا بھی تو نہیں ہے کہ ہم ان کی اپنے مخالف سیاستدانوں سے رواداری کی مثالوں کو جواز بنا کر کسی بات کی مذمت ہی کر سکیں ۔
عام حالات میں تو اس بیان کی اہمیت بھی بنتی تھی اور واہ واہ بھی لیکن جب سپریم کورٹ کا حکم آ چکا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک میں منحرف ارکان کا ووٹ شمار ہی نہیں ہو گا تو خود سوچیں کہ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے اس بیان پر انسان کیا رد عمل دے کہ جس میں انھوں نے دعویٰـ کیا ہے کہ نواز لیگ کے چار ارکان ہمارے پاس آ رہے ہیں اس لئے اب پنجاب میں حکومت پی ٹی آئی کی ہو گی ۔اس پر کیا بات کریں کہ 4تو کیا اگر نواز لیگ کے 40 ارکان بھی پی ٹی آئی کے پاس آ جاتے ہیں تو جب ان کا ووٹ ہی کاسٹ نہیں ہو گا تو کسی کی اکثریت میں اضافہ کیسے ہو گا لیکن پروپیگنڈا کی ایسی عادت پڑ چکی ہے کہ کسی بات کی اہمیت ہے یا نہیں لیکن پوائنٹ سکورنگ کے لئے کہہ دینی ہے ۔ یہی وہ رویے ہیں کہ جن کی وجہ سے پی ٹی آئی بظاہر تو پاکستان کی سب سے مقبول جماعت نظر آتی ہے لیکن در حقیقت صرف سوشل میڈیا پر ۔ سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے حق میں پروپیگنڈا ہوتا ہے اور ہوتا چلا جاتا ہے اور اس کے حامی سمجھتے ہیں کہ ہم نے بغیر لڑے ہی میدان مار لیا ہے لیکن ہوتا کیا ہے کہ اس سے الٹا انھیں نقصان ہوتا ہے کہ ان کے حامی اپنی جماعت کی زبردست پوزیشن دیکھ کر ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور مخالف جماعت ہائی الرٹ ہو کر کام کرتی ہو اور بالآخر جب نتائج مخالف جماعت کے حق میں نکلتے ہیں تو خان صاحب اپنے من پسند مشغلہ یا یہ کہہ لیں کہ اپنے ایجنڈہ پر ملک میں انتشار پھیلانے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور 35 پنکچرز پر 126 دن دھرنا دیتے ہیں اور بعد میں جب ان سے سوال ہوتا ہے تو وہ مسکرا کر ایک شان بے نیازی کے ساتھ پنکچرز والی بات کو سیاسی بیان کہہ کر ہوا میں اڑا دیتے ہیں لیکن کوئی ان سے یہ نہیں پوچھتا کہ ان 126دنوں کے دوران ملک و قوم کا جو معاشی نقصان ہوا اس کا ذمہ دار کون تھا ۔آج بھی تحریک انصاف کی سیاست 2014والی جگہ سے ایک انچ بھی ادھر ادھر نہیں ہوئی اور اب خان صاحب تیارہیں کہ کب پنجاب کے ضمنی الیکشن کے نتائج آتے ہیں تاکہ وہ ان کے خلاف ایک نیا کٹا کھول کر انتشار کا میدان سجا سکیں اس لئے کہ غداری بیانیہ کو تو پہلے بھی کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی تھی لیکن محترمہ بشری بی بی کی مبینہ آڈیو ٹیپ کے بعد غداری والا بیانیہ تو اپنی موت آپ مر چکا ہے لہٰذا خان صاحب کو اب کسی نئے کٹے کی ضرورت ہے جنھیں وہ سمجھتے ہیں کہ ضمنی انتخابات میں شکست کی صورت میں انھیں مل جائے گا لیکن خان صاحب کو ایک بات کا اندازہ نہیں کہ ضمنی انتخابات میں انھیں پہلے بھی پنجاب کی ایک آدھ کے سوا تمام نشستوں پر شکست خود ان کے دور حکومت میں ہوئی تھی اس لئے ان کی بات پر کوئی کان نہیں دھرے گا اس لئے اس مرتبہ انھیں اپنا شوق انتشار پورا کرنے کے لئے شاید کوئی کٹا نہ ملے ہاں دل کا رانجھا راضی کرنے کے لئے بکرا عید پر لاکھوں کٹے وچھے اور بکرے دستیاب ہوتے ہیں انھیں کھول کر اپنا شوق پورا کر سکتے ہیں ۔