انسانی فطرت اور مزاج کے مطابق خالق کائنات نے خوشی اور تفریح کا سامان حضرت انسان کے لئے بھی پیدا کیا ہے، یہ ان تمام خرافات سے پاک جو زمانہ جہالت کا خاصا ہوا کرتا تھا، اس خوشی کو عبادت کا درجہ بھی حاصل ہے،اس میں تکبر کے بجائے قادر مطلق کی کبریائی اور انسانی خدمت کا اخلاقی، معاشی ۔سماجی پہلو زیادہ نمایاں ہے کہ دنیا اسکی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
اسلامی تعلیمات میں انھیں عیدین کا نام دیا گیا ہے،ان کا بڑا تعلق معاشی سرگرمی سے بھی ہے، اگر عید الفطر کی بات کریں تو رمضان المبارک میں روزے کی حالت میں بشری خطا کی تلافی اس فطرانہ سے عبارت ہے جس کا اہم مقصد سماج کے نادار افراد کی مالی معاونت ہے،اس فعل سے ایک بڑی معاشی سرگرمی وقوع پذیر ہوتی ہے،عید کی خریداری سے پیسہ چند ہاتھوں سے نکل کر کاروباری طبقہ کے پاس جاتا ہے،یہی معاملہ عید قربان کا بھی ہے۔ سنت ابراہیمی سے معاشرہ کے بہت سے افراد کا کاروبار جڑا ہوا ہے، اگر بنظر غائر دیکھیں تو اس سے عام فردسے لے کر بڑے سرمایہ دار تک سب ہی مستفید ہوتے ہیں، اور یہ سلسلہ قربانی کے بعد بھی جاری رہتا ہے، چمڑے کی صنعت کا پہیہ بھی اس سے گھومتا ہے،اس سے متعلق مصنوعات کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے، بہت سی اشیاء برآمد بھی کی جاتی ہیں،جو زرمبادلہ کا ذریعہ بنتی ہیں۔اسلامی شعائر کی یہ سرگرمی تین روز تک جاری رہتی ہے۔ اخلاقی گراوٹ کے اثرات مذہبی تہواروں کے موقع پر بڑے نمایاں ہوتے جارہے ہیں،لالچ، ہوس، حرص نے اس خدا خوفی کا جنازہ نکال دیا ہے ، جو کسی مسلم سماج کی پہچان ہوا کرتا تھا اورجس کی تربیت کے لئے یہ تہوار درس کا ساماں ہیں۔
عید قرباں کی آمد ہوتے ہی جانوروں کی چوری کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کہ کسان کی سال بھر کی کمائی اس کی آنکھوں کے سامنے لوٹی جاتی ہے اور وہ بے بسی کی تصویر بن کر اسے دیکھتا ہے، ہماری غالب آبادی دیہاتوں میں مقیم ہے، زیادہ تر کسان اپنے جانور اپنے ڈیروں پر باندھتے ہیں، یوں چور اور ڈاکو ں رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر جانور لے جاتے ہیں، یہ سلسلہ کئی سال سے جاری ہے مگر اس کا تدارک اب تلک نہیں ہو سکا ہے، دوسرا مسئلہ جو کسان کو قربانی کے جانور رکھنے پر درپیش ہے وہ اسکی بیماری ہے، جو اچانک حملہ آور ہوتی ہے، اور
بہت سے جانور ہلاک ہو جاتے ہیں، بیچارے کسان کی ساری پونجی ضائع ہو جاتی ہے، اگرچہ کچھ کسان اِنکی ویکسین بھی کراتے ہیں پھر بھی غیر متوقع بیماریاں اس موسم میں وارد ہوتی ہیں، بالخصوص جب جانور فروخت کی غرض سے منڈی لائے جاتے ہیں تو وہاں دیگر بیماریاں انکی منتظر ہوتی ہیں ، ان سے بچنا بھی محال ہوتا ہے، اس دوران اگر کوئی جانور بیمار پڑ جائے تو اس کا علاج مشکل ہو جاتا ہے پھر اسکی قیمت بھی کم ہو جاتی ہے۔
مشاہدہ میں آیا ہے کہ عید کے ان دنوں میں منڈیوں میں جانوروں کے علاج کے وسیع پیمانے پر انتظامات نہیں ہوتے تو بعض جانور مر بھی جاتے ہیں، ان بیماریوں کی وجہ سے بعض مالک بھی متاثر ہوتے ہیں، کچھ وائرس اب مستقل طور پر کافی عرصہ سے حملہ آور ہورہے ہیں، انکی رسائی اب تودیہاتوں تک بھی ہوچکی ہے، لیکن اس کے باوجود سرکاری سطح پروائرس کے علاج کا کوئی مناسب بندوبست نہیں، ہونا تو یہچاہئے کہ ہر یونین کونسل کی سطح پر ویٹرنری ہسپتال موجود ہو، جہاں تک کسان کی رسائی آسان ہو اور جانوروں کے علاج کی سہولت ارزاں نرخوں پر میسر ہو، کسانوں کو عید قربان سے پہلے آگاہی بھی دی جائے، عید کے علاوہ بھی جانور ہمارا ایک اثاثہ ہیں، بھینس کو تو ’’بلیک گولڈ ‘‘کہا گیا ہے۔
بڑے شہروں میںعید قربان پر منڈیوں میں جو دیگر مسائل ہیں ان میں جانوروں کی فروخت کی رقم کو محفوظ کرنا اور بحفاظت گھر تک لے جانا ہے، اس طرح کا تحفظ کاروباری طبقہ کو سرے سے میسر نہیں، عمومی طور پر ان ایام میں سرکاری تعطیلات ہوتی ہیں، بنک بند ہوتے ہیں، لہٰذا بھاری بھر رقوم کو سنبھالنا بھی سادہ لوح کسان کے لئے بڑا مسئلہ ہے۔بہت سے واقعات میڈیا کی زینت بنتے ہیں کہ جانوروں کے بیوپاری کو راستہ میں لوٹ کر تمام جمع پونجی سے محروم کر دیا گیا، اس کے علاوہ بکر منڈیوں میں کھانے پینے کے انتظامات انتہائی ناقص ہوتے ہیں، وہاں پر موجود افراد کے لئے صحت افزاء کھانا ہی میسر نہیں ہوتا، بہت سے بیوپاری بیمار پڑ جاتے ہیں، کسی ناگہانی صورت یا بارش میں ان کے قیام جانوروں کی حفاظت کا بھی کوئی خاطر خواہ اہتمام نہیں کیا جاتا۔ من حیث القوم جس طرح ہم موقع پرست واقع ہوئے ہیں، اسکی جھلک اب ہر شعبہ ہائے زندگی میں پائی جاتی ہے، ٹرانسپورٹر سے لے کر قصاب تک اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا اپنا فرض عین سمجھتا ہے، چارہ فروخت کرنے والے بھی ان چند ایام میں امیر ہونے کی خواہش پال لیتے ہیں، قربانی کے جانور کے لئے کچھ شرائط فقہاء نے مقرر کی ہیں، منافع خور اس میں بھی ڈنڈی مارتے ہیں، جانور کو فروخت کرتے ہوئے دھوکہ دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، جانور کی عمر، اس کے وزن یا بیمار ہونے کی صورت میں غلط بیانی سے کام لیتے ہیں، بعض تو اس حد تک خیانت کر جاتے ہیں کہ غیر فطری اشیاء کھلا کر جانور کو فربہ کرتے ہیں اور اس بے زبان کی زندگی سے بھی کھیلتے ہیں۔
اس طرح کا معاملہ جانوروں کی کھال فروخت کرنے میں بھی درپیش ہے، حالانکہ خرید کندگان کو بخوبی علم ہے کہ قربانی کے جانور کی کھال کا پیسہ اسکے مالک کی جیب میں نہیں جائے گا بلکہ یہ سماج کے نادار، غرباء کا حق ہے، اس کے باوجود چمڑہ خرید کرنے والا مافیا اکھٹا ہو جاتا ہے اور قربانی کی کھال کو اونے پونے خرید کر مستحقین کو بڑی رقم سے محروم کر دیتا ہے بعد ازاں اس سے کاروبار کر کے کئی گنا زیادہ منافع کماتا ہے۔ بدقسمتی سے مذکورہ مسائل کئی دہائیوں سے ان تمام طبقات کو درپیش ہیں جن کا واسطہ کسی نہ کسی طرح سے عید قربان سے ہے۔
یہ کوئی عارضی سرگرمی بھی نہیں بلکہ ایک دینی فریضہ ہے ایک مسلم ریاست ہو نے کے ناتے ارباب اختیا ر پر لازم ہے کہ وہ مستقل بنیادوں پر اسکے لئے انتظامات کریں کہ کسی کو بھی ناجائز فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے۔
ہم بخوبی جانتے ہیں کہ حج کے موقع پر لاکھوں فرزندان توحید قربانی جیسا فریضہ انجام دیتے ہیں لیکن پردیس میں ہونے کے باوجود انھیں ایسی قباحتوں سے سابقہ پیش نہیں آتا، وہاں کے انتظامات ہی سے راہنمائی لے کر عوام الناس کو ریلیف فراہم کیا جا سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے عیدین کو ہماری خوشی کے لئے دینی فریضہ قرار دے روحانی، اخلاقی طور پر اتنا خوب سیرت بنایا ہے مگر ہم اپنے چھوٹے اور معمولی فائدہ کے لئے اس کی خوبصورتی کو بد صورتی میں بدل رہے ہیں، اپنے آپ سے بڑا دھوکہ اور کیا ہو سکتا ہے۔تاہم سرکار کی اس بابت خاموشی کاروباری حضرات اور کسانوں کوزیادہ مایوس کر رہی ہے۔