امریکہ اور چین سے تعلقات میں توازن قائم کرنا وقت کی ضرورت ہے لیکن ہمارے رویے میں بے نیازی یا لاپرواہی ہے چند برس قبل تک پاکستان امریکی مفادات کابڑا پاسبان تھا مگراچانک چین کی طرف جھکاؤ بڑھانے سے خطرات کم نہیں ہوئے حالانکہ خارجی اہداف کے انتخاب کا یہ عمل بتدریج ہوتا تو عالمی اقوام کی طرف سے زیادہ سخت ردِ عمل سے محفوظ رہتے مگر پالیسی سازوں کی نظر میں شاید اہداف سے زیادہ اور معامالات ہیں لیکن یہ بے نیازی قومی مفاد کوزک پہنچا سکتی ہے وزارتِ خارجہ کی ذمہ داری صرف اہداف کا انتخاب ہی نہیں اہداف کے حصول کا لائحہ عمل ترتیب دینا اور پھر اُن پر عملدرآمد بھی ہے لیکن اِس حوالے پاکستان کی سفارتکاری نہایت کمزور ہے اور کچھ کرنے کی بجائے خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ نے تک محدودہے اسی بناپر عالمی معاملات میں باربار سُبکی اُٹھانا پڑتی ہے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں چاہے دشمن ملک کے طور پر ہی سہی بھارت کو اہم مقام حاصل ہے جس کی وجہ مسئلہ کشمیر ہے جو 74 برس سے حل طلب ہے دونوں ممالک ایک دوسرے پر اندرونی معامالات میں مداخلت کے الزامات عائدکرتے ہیں مسئلہ کشمیر پر دو مکمل جنگیں ہوچکی ہیں لیکن باربار جارحیت کے باوجود بھارت کو سفارتکاری میں برتری حاصل ہے اور پاکستان تمام تر امن پسندی کے باوجود دفاعی مقام پر صفائیاں دے رہا ہے پاکستان کے لیے خارجی پالیسی کے اہداف کا انتخاب کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارتی ریشہ دوانیوں کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں لیکن کچھ عرصے سے پاکستان اِس حوالے سے ذمہ داریوں کی ادائیگی میں قاصر دکھائی دیتا ہے اسی وجہ سے بھارت کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی جرأت ہوئی حالانکہ قبل ازیں فوجی ادوار میں بھی اُسے ایسا کرنے کی کبھی جرأت نہیں ہوئی جونہی امریکہ سے تعلقات میں ہم نے بگاڑ پیدا کیا اسے کشمیر ہڑپ کرنے جیسا انتہائی فیصلہ کرنے کا حوصلہ ملا یہ فیصلہ پاکستان کی سفارتی ناکامی اور کمزورخارجہ پالیسی کی تصدیق کرتاہے۔
بھارت کو عالمی دباؤ کی پروا نہیں اقوامِ متحدہ کی طرف سے ایک سے زائد قراردادیں منظور ہونے اور کئی دوطرفہ معاہدوں کی موجودگی میں بھارت کے یکطرفہ اقدامات درست نہیں لیکن حالات اِس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ کشمیرکو ضم کرنے کے بعد پاکستان کوبھی سبق سکھانے اور توڑنے کی دھمکیاں دینے لگا ہے نیوی کمانڈرکلبھوشن کی گرفتاری،کے پی کے،بلوچستان،سندھ میں جاری شورش اور تخریبی سرگرمیوں میں بھارتی ہاتھ عیاں حقیقت ہے جوہر ٹاؤن لاہور دھماکے کی ماسٹر مائنڈبدنامِ زمانہ خفیہ ایجنسی را ہے جس میں کوئی ابہام نہیں بھارت کے سفاکانہ کردار کو بے نقاب کرنے میں سُستی کا تاثر ملتا ہے اسی بناپر اہداف کے انتخاب کے باوجود اہداف کا حصول نہیں ہوتا بھارت تخریب کاری کے باوجود بالاتر اور ہم ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے صفائیاں دے رہے ہیں ستم طریفی تو یہ ہے کہ
پاکستانی سفارتخانوں میں بھی اِس حوالے سے کچھ خاص ہلچل نظر نہیں آتی اگر پاکستانی سفارتخانوں میں کشمیرمیں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارتی تخریب کاریوں کو بے نقاب کرنے کے لیے خصوصی کاؤنٹر بنائے جاتے اور حکومتی نمائندوں سے روابط بڑھانے سے مظلوم کشمیریوں کے حق میں نہ صرف عالمی رائے عامہ ہموار بلکہ بھارت پر عالمی دباؤ بھی بڑھ سکتا ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ خارجہ پالیسی کے اہداف کے انتخاب میں عالمی طاقتوں سے تعلقات میں توازن پیداکیا جائے۔
سرد جنگ کے دوران دنیا دو بلاکوں میں منقسم تھی پھر روس کی شکست و ریخت سے عالمی صورتحال ہی بدل گئی مگر اب حالات پھر کروٹ لینے لگے ہیں اور سرد جنگ کا ماحول بننے لگا ہے عصرِ حاضر کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے پاکستان نے بھی تیاری کی ہے ایسا نظر نہیں آتا بلکہ حکومت جذباتی فضا بنارہی ہے امریکی خاموشی کے باوجودبچوں کی طرح تنقید کے نشتر چلائے جا رہے ہیں یہ رویہ کسی طور دانشمندانہ نہیں اِس میں شائبہ نہیں کہ عالمی طاقتوں کے انتخاب میں پاکستان کی ترجیح اب امریکہ نہیں چین ہے لیکن کیا بہتر ہوتاکہ دیگر طاقتوں کو ناراض کیے اور دشمن بنائے بغیر ترجیحات کا حصول یقینی بنایا جاتا بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے جو سرد جنگ کے ایام میں روس کا چہیتا رہا جو نہی روس زوال کا شکار ہواپالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے امریکہ کا منظورِ نظر ہو گیا ابھی حال ہی میں کرونا کی بدترین لہر کے باوجود کامیاب سفارتکاری کے ذریعے پابندیوں سے محفوظ رہاہمیں بھی جذباتیت سے نکل کر خارجہ پالیسی کے اہداف کا انتخاب کرتے ہوئے حصولِ اہداف کی کوشش کرنی چاہیے۔
ایف اے ٹی ایف ہو یا اب چائلڈ سولجر ایکٹ کا معاملا ہو یا توسیعی رعایت کے بدلے یورپی یونین کی طرف سے توہینِ رسالت کے قوانین کی تبدیلی کی بات ہو اِس میں ہماری جذباتیت کا بڑا عمل دخل ہے بروقت، تحمل اوردلیل سے مکالمہ اچھے نتائج دیتا ہے امریکہ کو بے وجہ نہ للکارتے تو جارج ڈبلیوبش کا 2008میں پاس کیا جانے والا چائلڈ سولجر پریونشن آج لاگو نہ ہوتا ایف اے ٹی ایف اور توہینِ رسالت کے قوانین میں تبدیلی کے مطالبات نہ ہوتے اسلامو فوبیا ایک حقیقت ہے جس کی وجہ سے یورپی اقوام کے ساتھ کئی اور ممالک جیسے کینڈاوغیرہ میں مسلمان بدترین تعصب کے سائے میں زندگیاں بسر کر نے پر مجبور ہیں جس کا عمران خان اظہاربھی کرتے رہتے ہیں لیکن جب تک ہم زبانی کلامی سے آگے نہیں بڑھیں گے اور جامع ڈائیلاگ کی طرف نہیں آئیں گے تب تک لاکھ نعرے لگائیں یا سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنائیں بات نہیں بنے گی لیکن اِس حوالے سے خارجہ پالیسی کے اہداف میں مکمل خاموشی ہے۔
پاکستان روایتی گولہ بارود اور چھوٹے ہتھیاروں میں خودکفالت کے بعد میزائل ٹیکنالوجی سے لیکر طیارہ سازی تک کے مراحل میں داخل ہو چکا ہے لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ دفاعی صنعت میں کامیابیوں کے بعدسب سے لڑائی مول لے لی جائے دانشمنداقوام ایسی حماقتوں کا مظاہرہ نہیں کرتیں ہمیں بھی عالمی طاقتوں کو مخالف بنانے کے بجائے زیادہ سے زیادہ طرفدار بنا نا ہوگا تاکہ سرمایہ کاری میں اضافہ ہو اور پیداواری عمل بڑھے جو برآمدات کو فروغ دینے کا باعث بنیں تحقیقی علوم میں ترقیافتہ ممالک کی برتری ایک حقیقت ہے تحقیقات تک رسائی حاصل کرنی ہے تو مخالفتیں بڑھانے کا عمل روکنا ہو گا پاکستان کی خارجہ پالیسیوں کے اہداف کا انتخاب کرتے ہوئے ملک کے معاشی مسائل کو نہ بھولاجائے یہ درست ہے کہ بھارت اور کشمیر کو خارجہ پالیسی کے اہداف میں اہم حیثیت حاصل ہے مگر دیگراقوام سے بات چیت اور ملاقاتوں کا عمل منقطع کرنا مسائل کا موجب بن سکتا ہے آج عرب بھائی مسلمان ہو کر بھارت کے ہمنوا ہیں تو ہمیں عالمی طاقتوں کی مخاصمت اور تجارتی جنگ میں حصہ دار بننے کی کیا ضرورت ہے پاکستان کی خارجہ پالیسی مرتب کرتے وقت ذمہ داران ملک کو درپیش داخلی و خارجی چیلنجز سے صرفِ نظر نہ کریں اوراہداف و ترجیحات کے تعین تک محدود رہنے سے آگے بڑھیں تبھی دہشت گردی کے لیبل سے چھٹکارہ مل سکتا ہے کشمیر کے حوالے سے عالمی مدد حاصل ہو گی علاوہ ازیں ایف اے ٹی ایف سمیت چائلڈ سولجر کا الزام دھل سکتا ہے سرمایہ کاری ہونے سے پیداواری عمل میں اضافہ ہو گا تو برآمدی اہداف کا حصول مشکل نہیں رہے گا شرط یہ ہے کہ اہداف کے انتخاب کے ساتھ عالمی طاقتوں کی مخالفت مول لیے بغیرکام کیا جائے ملک معاشی ودفاعی لحاظ سے مضبوط ہوگا تو عالمی سطح پر آواز میں زیادہ وزن ہوگا۔