٭…… امریکہ نیٹو نے بگرام ایئربیس بھی خالی کر دیا……؟
٭…… نپولین بوناپارٹ نے کہا تھا میں جنگ ہار سکتا ہوں مگر وقت ضائع نہیں کر سکتا۔ لیکن امریکہ جنگ بھی ہار گیا ہاتھ بھی کچھ نہ آیا؟ یعنی وقت بھی ضائع ہوا۔ درحقیقت سیاسی مفادات کے لئے امریکہ افغانستان میں داخل ہوا، امریکی آمد بھی عجلت پہ مبنی تھی۔ اب انخلا کا فیصلہ بھی اس قدر عجلت پہ مبنی ہوا کہ امریکی ”تھنک ٹینک“ پے عقل دنگ ہے۔ بہرحال امریکی نیٹو افواج کے افغانستان میں داخلے کے نتائج آ چکے۔ اب انخلا کے نتائج دنیا دیکھے گی؟ برٹرینڈرسل نے کیا خوب کہا تھا اگر ہم جرائم کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں تو ہم خود کوئی ایسا کام نہ کریں جس کا شمار جرم کے زمرے میں ہوتا ہے۔ اب ایک طرف امریکی شکست پے تیرزنی ہو رہی ہے تو دوسری طرف طالبان نظریاتی جیت کا پرچم تھامے ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ حالانکہ بعض ذرائع کے مطابق پینٹاگون نے امریکی صدر مسٹر جوزف بائیڈن سے کہا تھا کہ افغانستان سے انخلا میں کچھ تاخیر کر دی جائے کیونکہ طالبان امن مذاکرات کے معاہدوں میں سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہے۔ اسی طرح ری پبلکن پارٹی کے سنیٹر مسٹر لیبڈے گراہم نے بھی جو مشورہ مسٹر جو بائیڈن کو دیا اسے بھی رد کر دیا گیا۔ سچ پوچھیں تو کم از کم مسٹر جو بائیڈن اپنے اتحادی کے لئے نہ سہی، اپنے کچھ نہ کچھ ”فیس سیونگ“ کے لئے ہی امریکی سنیٹر کا مشورہ مان لیتے یا ماہ رواں ہونے والی روسی صدر مسٹر پوٹن اور ترکی کے صدر جناب طیب اردوان کی ملاقات کو ہی سامنے رکھتے کہ انہوں نے اپنے اختلاف کے باوجود انقرہ اور ماسکو نے کس باوقار اور خوشگوار انداز
میں دو اہم امور پر مفاہمت کو قابل عمل بنایا ہے جبکہ امریکی نئی حکومت ایسی بھی عاقبت نااندیش نہیں کہ کسی نئے انداز میں خطے کا امن اور اپنی ریاست کا کباڑہ کرے۔ بہرحال اس ضمن میں ایک امریکی صحافی دوست سے جب میں نے یہ پوچھا؟ کیا امریکی صدر سے افغان صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سے ملاقات سے قبل جناب عمران خان وزیراعظم پاکستان سے باہمی مشاورت ضروری نہ تھی؟ ان کے جواب میں مجھے بالآخر کہنا پڑا۔ کہ بات نہ بدلیں اپنی سوچ بدلیں کیونکہ پاکستان کی اس فضول جنگ کے لئے قربانیاں شمار ہی نہیں کی جا سکتیں۔ معذرت، بات کدھر سے کدھر نکل گئی۔ بات ہو رہی تھی امریکی انخلاکی…… تو معزز قارئین! بلاشبہ ہر سُو یہی مباحث ہو رہے ہیں افغان خانہ جنگی کی نہ جانے کیسی کیسی Paid اور ہولناک سٹوریاں سنائی جا رہی ہیں۔ لیکن ہمیں یہ پہلو بھی مدنظر رکھنا ہو گا کہ یہ 2001 نہیں 2021 ہے۔ یعنی ”مصنوعی ذہانت“ کی دنیا جس کے سامنے نہ صرف ماحول تبدیل ہو چکا ہے بلکہ وقت بھی سکڑ چکا ہے۔ لہٰذا افغانستان کی سیاسی شطرنج اب وہ نہیں ہو گی جو سمجھی جا رہی ہے کیونکہ آج کا امریکہ نہ صرف سیاسی خلفشار کا شکار ہے بلکہ اقتصادی، سفارتی اور فوجی حوالے سے بھی اپنی پوری تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ اقوام عالم پے مظالم کی بدولت عالمی تنہائی کا الگ شکار ہو رہا ہے، اسی طرح طالبان بھی خونی تاریخ سے کئی سبق سیکھ چکے ہیں۔ لہٰذا مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ حالات بدل چکے ہیں، سب سے بڑھ کر امریکی شاطرانہ سازشوں سے بکھرنے والا اور دو تین عشروں سے چپ سادھے انقلابی قدم ماپنے والا روس بھی عالمی کردار کا حصہ بننے کے لئے کھڑا ہو چکا ہے۔محسوس ہوتا ہے کہ جیسے بسااوقات ایک ہی دنیا دو مختلف خواب دیکھنے لگتی ہے۔ اس بار افغانستان میں قیامت صغریٰ برپا نہیں ہو گی، میری تو دلی خواہش ہے کہ اب کسی ایک بھی افغانی کا خون نہ بہے۔ کوئی ایک بھی افغانی دوسروں کے ہاتھ کا کھلونا نہ بنے۔ اگر ایسا نہ بھی ہوا، نت نئی سازشوں کے جال افغان سرزمین کو اپنی لپیٹ میں لیتے رہے تو بھی میرا یقین ہے کہ روس اور چین بلکہ پاکستان اور ایران کا افغانستان میں مثبت کردار ہو گا۔ جو ہر شے کو نئی شکل میں ڈھال دے گا بلکہ یہ بھی امکان غالب ہے کہ اس مفاہمتی عمل میں چین افغانستان اور ایران تک جا پہنچے اور باشعور طالبان بھی جنگ سے زیادہ تجارت کو فوقیت دیں۔ اس کی اولین مثال سنٹرل ایشیا کے درمیان تاجکستان کی سرحد پر تعمیر کئے گئے مہنگے ترین ”پُل“ جسے 2007 میں امریکہ نے اپنے مالی مفادات کے لئے تعمیر کیا تھا، اس کا بھی مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ اس کے علاوہ طالبان نے امریکی صحافی جوناتھن سوان کے سوال امریکی اڈے دینے کے جواب میں وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے جو دوٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے اور اپنے قومی مفاد کے شایان شان "Absolutely not" جیسے پراعتماد جواب پر بے حد شکریہ ادا کیا ہے مگر ابھی اس رات کی سحر باقی ہے اور شطرنج کی بساط کی مانند ہر بار ایک نئی چال کے مہرے کسی نئے کھیل کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ جس سے ”جیت ہار“ روپ بدل سکتی ہے؟ کیونکہ ہزاروں برس سے تہذیب و تمدن کی یہی تاریخ رہی ہے! اس لئے پوری سنجیدگی سے ایسے حکمت و دانائی پے مبنی جوہری فیصلوں کی ضرورت ہے جو نتیجہ خیز ہوں اور یاد رکھیں! نتیجہ امتحان کے مطابق ہی نکلتا ہے؟