اسلام آباد:سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ وزارت دفاع ایگزیکٹو ادارہ ہے اور آئین کے تحت ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کر سکتا، جب کہ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے کیس میں بنیادی سوال آئینی نوعیت کا ہے۔
یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل کی سماعت کے دوران سنایا۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی سربراہی جسٹس امین الدین کر رہے تھے، اور بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی شامل ہیں۔
وزارت دفاع کے وکیل، خواجہ حارث نے عدالت میں کہا کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں فیصلہ دیا تھا کہ فوج کے ماتحت سویلینز کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے۔ جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ اس کیس میں متاثرہ فریق کون ہے اور اپیل کس نے دائر کی ہے؟
خواجہ حارث نے بتایا کہ اپیل وزارت دفاع کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔ اس پر جسٹس جمال خان نے سوال کیا کہ وزارت دفاع ایگزیکٹو ادارہ ہونے کے ناطے، کیا وہ خود جج بن کر فیصلہ کر سکتا ہے؟ کیا آئین میں اختیارات کی تقسیم کے مطابق ایگزیکٹو کو عدلیہ کا کردار ادا کرنے کی اجازت ہے؟
جسٹس جمال خان مندوخیل نے مزید کہا کہ آئین میں اختیارات کی واضح تقسیم کی گئی ہے اور ایگزیکٹو کو عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں ہے۔ فوجی عدالتوں کے معاملے میں سوال بنیادی طور پر آئینی نوعیت کا ہے۔
وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ اگر کوئی اور قانونی فورم دستیاب نہ ہو، تو ایگزیکٹو فیصلہ کر سکتا ہے۔ جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے جواب دیا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کا فورم پہلے سے موجود ہے، تو ایگزیکٹو خود جج کیسے بن سکتا ہے؟
عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔