کسی بھی موضوع پر بات کرنی ہو تو سیاق و سباق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ گمٹی بازار لاہور کے رہائشی کے گھر جا کر ڈیفنس یا کینٹ لاہور کی طرح گھر کے چاروں طرف 4/5 فٹ چھوڑی ہوئی خالی جگہ کا پوچھا جائے۔ مذہب اور قانون سے بھی زیادہ گہرا اثر زمینی رشتے سے جنم لینے والی روایات کا ہوتا ہے۔ زمین یعنی دھرتی جہاں کا انسان باسی ہے وہ صدیوں سے جڑی تاریخ کا سلسلہ اور ارتقا رکھتی ہے جس سے انسان کو فرار ممکن نہیں۔ آج کے یورپ میں جو بھی ہم دیکھتے ہیں یہ صدیوں کی مسافت کے بعد ملنے والی منزل ہے بظاہر چین کے 75 سال ہیں مگر اپنے قومی حوالوں سے چین کی جڑت میں بھی صدیوں کا تانا بانا ہے۔ اسی طرح برصغیر اور اس میں شامل علاقے، ان میں بسنے والے لوگ اپنی اپنی دھرتی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ آئین قانون بھلے ایک کر دے مگر معاشرت ایک انتہائی مختلف اور خوبصورت چیز کا نام ہے۔ کسی معاشرت میں بسنے والے اس سے مودت رکھتے ہیں بھلے دوسری معاشرت کے لوگ اس کو جہالت سمجھتے ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ 2014 میں ایک ڈاکٹر نہیں بلکہ ہسپتال اور ڈاکٹروں کے غول کی غفلت کی وجہ سے میں شدید بیمار پڑ گیا۔ 6 سات ہفتے گھر پر آرام کرنا پڑا، بحالی بہت سست روی سے ہو رہی تھی۔ رمضان المبارک تھا لہٰذا ٹی وی چینلز پر مذہبی پروگراموں کی بہار تھی ایک قرآن کی پیروی کرنے والے اپنے اپنے انداز اور نقطہ نظر کے مطابق بات کرتے رہے۔ ان میں بڑے بڑے مولانا، ذاکر، مفکر، دانشور سب تھے۔ ہمسایوں کے حقوق، والدین کے حقوق، والدین سے سلوک کون سا عمل کس طریقے سے زیادہ افضل ہو جاتا ہے۔ جھوٹ، تہمت، ملاوٹ، احسان جتلانا، شکر گزار نہ ہونا، احسان فراموشی، گناہ صغیرہ اور گناہ کبیرہ کی تعریف اور اقسام، شراب نوشی، جنسی جرائم، گناہوں سے توبہ، گناہوں کا ازالہ، نیکی کے درجات عملیات کے طریقے، آیات مبارکہ کی تلاوت کے مواقع (نہ کہ عمل کرنے کی بات) البتہ انسانیت جو دین کی اساس ہے پر کوئی توجہ نہ تھی۔ میں نے روزانہ درجنوں علما کو سنا پھر میں نے سوچا کہ اگر ان کو
سیکنڈے نیوین ممالک، یورپ، امریکہ وغیرہ لے جایا جائے یہ ان سے کیا بات کریں گے۔ جھوٹ سے کسی کا حق اور مال کھانا ان کے تصور سے باہر ہے۔ ایک بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ ہے جس کو وہ تقریباً میاں بیوی کا رشتہ ہی تصور کرتے ہیں اگر کوئی بچہ ہو جائے تو اس کو اپنی ولدیت دیتے ہیں۔ شراب اور نائٹ کلبز کا کاروبار اور ملبوسات میں سکرٹ وغیرہ جو کہ ہمارے ہاں مختلف طریقہ سے رائج ہے پھر بھی جھوٹ، فراڈ، دھوکہ دہی اور ملاوٹ کے حوالہ سے تو ان علما کو وہاں تبلیغ کی ضرورت پیش نہیں آئے گی جبکہ میں نے لڑکپن سے دیکھا ہے کہ جو بھی بندہ دیکھیں وہ کسی نہ کسی کے پاس اپنے پیسے پھنسا کر بیٹھا ہے عدالتی مقدمات میں جعلی چیک، سول مقدمات میں وراثتی جائیداد یا زمین کے فراڈ ناجائز قبضہ کے خلاف مقدمات ہیں۔ ایسے مقدمات آپ کو امریکہ پورپ کینیڈا یا ان ممالک میں نظر نہیں آئیں گے لہٰذا سیاق و سباق یہ ہیں کہ ہمارے مسائل مقدمات روایات اور زمینی حقائق مختلف ہیں یورپ امریکہ میں فرد اکائی ہے اور ہمارے ہاں خاندان اکائی ہے خاندانی نظام مضبوط ہو تو ملک مضبوط نظر آئے گا بد قسمتی سے خاندانی نظام کو اکائی کے طور پر قائم رکھنے میں خاندان کے ہر فرد نہیں بلکہ کسی ایک فرد کے ذمہ ہی ہوا کرتی ہے باقی افراد یہ ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ وہ عملی طور پر مشرقی حقوق اور اجتماعی خاندانی حقوق مانگتے ہیں جبکہ فرائض کی باری آئے تو اس میں یورپ کی مثال دیں گے میرا جسم میری مرضی۔ میری گھڑی میری مرضی اور اگر مصیبت میں آ جائیں تو خاندان اور احباب کی طرف نظر جاتی ہے۔ دراصل جہاں نظام ضامن ہو وہاں خاندان کی ذمہ داری کم ہی نہیں ختم ہو جایا کرتی ہے اور ان ذمہ داریوں کے بغیر رشتوں میں محبت خالص ترین ہو جایا کرتی ہے کیونکہ یہ رشتے دوستی ہو یا خونی صرف رشتے رہ جاتے ہیں ذمہ داری اور بوجھ نہیں بنتے مگر ہمارے ہاں اگر رشتے اور دوستی اگر تقویت و فوائد کا ذریعہ بھی ہو تو اس میں مادیت اور منافقت کی آمیزش لازمی ہوا کرتی ہے۔ ایسے میں پھر رشتے رشتوں کو کھانا شروع کر دیتے ہیں۔ میں مزید آسان کر دوں چند دوستوں کو دیکھیں چند سال کے بعد یا تو آپ کو ایک دوسرے کے دشمن نظر آئیں گے یا کم از کم شکوہ گر ہوں گے۔ یہی حالت رشتوں کی ہے نئے رشتے پرانے رشتوں کو کھا جاتے ہیں حرف غلط کی طرح مٹا دیتے ہیں بہو، ساس، داماد نند تو مشہور زمانہ رشتوں میں بدل گئے مگر گھر وہی چلے جن میں قربانی اور برداشت باقی رہ گئی۔ یہی صورت حال دوستوں کی دوستیوں میں دیکھی گئی۔ آپ اپنے جس کسی دوست کا تعارف کرانے کا جرم کریں اگلے چند ماہ میں آپ کا دوست آپ کا دشمن بن چکا ہو گا۔ بہرحال ہمارے زمینی حقائق یہ ہیں کہ ہم اخلاقی، سماجی، معاشی اور ہر لحاظ سے پستی کی طرف گامزن ہو گئے ایک مذہبی سہارا ہے وہ بھی ہم نے تقریری ٹچ، شادی بیاہ اور موت تک محدود کر دیا۔ کیونکہ ہمارے مذہبی رہنما کاروباری ہو گئے سیاسی ہو گئے جب کاروباری ہو جائے تو وہ دراصل بازاری ہو جایا کرتا ہے وہ وہی کچھ بیچتا ہے جو بازار کی مانگ ہو۔ رشتے رشتوں کو کھانے لگے ہر گھر، ہر طبقے، ہر گروہ اور معاشرے کی کہانی ہے۔ خاندان یا فرد کا معاشرتی اکائی ہونا تو دور کی بات ہماری کرنسی جس کی اکائی پیسہ ہے وہ کسی کو نظر آئے تو ضرور بتائے، چلیں ایک روپیہ دو روپیہ پانچ روپے ہی نظر آئیں تو ضرور بتائیں۔ مگر ابھی کچھ لوگ باقی ہیں کئی رشتے رشتوں کی فکر اور خیر کے لیے قربان ہوئے چلے، بھلائی کی خاطر مسجدوں میں دھنسے جا رہے ہیں قربانی کی مثالیں رقم کر رہے ہیں اور زیادہ تر رشتے رشتوں کو کھا رہے ہیں، نگل رہے ہیں۔ حساسیت سزا بن گئی، وفا خود کشی ہو گئی۔ جس معاشرت میں شادی کے بعد بھی بیٹیوں کو بابل، امڑی اور ویروں (والدین اور بھائیوں) کی زیادہ ضرورت ہو، باپ بیٹوں کے لیے رت جگوں میں مبتلا ہوں، وہاں انسان شکوہ تو کرتا ہے کہ
گر لکھا تھا مقدر میں، مقدر سے ہی لڑنا
آدم کو بھی صاحب مقدور کیا ہوتا
ہماری معاشی و معاشرت کی اکائیاں ہر سطح پر تحلیل ہو گئیں اس مہنگائی، بیگانگی ذات، دوریوں کے جدید دور میں ہر کوئی سوالیہ خاموشی سے کہتا ہے۔ گلزار بھائی (گلزار احمد بٹ سپرنٹنڈنٹ جیل) کی وساطت سے:
تم تو تھکن شناس تھے چہرے سے بھانپتے
تم کو بھی آبلے ہی دکھانے پڑے