اسلام آباد: سپریم ایپلٹ کورٹ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم نے کہا ہے کہ میں نے کسی پر کوئی الزام نہیں لگایا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں سابق چیف جج کا کہنا تھاکہ اگلی سماعت 20 تاریخ کو ہے اور اس پر دیکھیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے کسی پر کوئی الزام نہیں لگایا جبکہ غیرمشروط معافی مانگنے سے متعلق سوال پر کہا کہ کیس زیرسماعت ہے ابھی کچھ نہیں کہوں گا۔
خیال رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے رانا شمیم بیان حلفی کیس میں توہین عدالت کی فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی 20جنوری تک مؤخر کر دی۔
جمعے کو کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی انصار عباسی سے استفسار کیا کہ ’آپ نے درخواست میں لکھا ہے میں نے کلیریکل غلطی کی ہے بتائیں وہ کونسی ہے؟۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’آپ کے فیصلے میں مجھ سے منسوب کر کے لکھا تھا کہ اگر غلط حقائق ہوں تو بھی مفاد عامہ کے لیے شائع کریں گے حالانکہ میں نے تو ایسی بات نہیں کی۔‘
اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی انصار عباسی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس بینچ سے زیادہ کسی کو اظہار رائے کی آزادی کا خیال نہیں، مگر کیا کوئی جھوٹی دستاویز بھی آپ کو دے دے تو اسے چھاپ دیں گے؟۔
انہوں نے کہا کہ یہ جو بیانیہ بنایا ہوا ہے اس سے درخواست گزاروں کے حق انصاف پر فرق پڑتا ہے۔ بیانیہ یہ ہے کہ (جسٹس) ثاقب نثار نے کسی کیس میں اس عدالت کے ایک جج سے بات کی مگر حقیقت یہ ہے کہ بیان حلفی میں شامل ایک بھی جج بینچ میں شامل نہیں تھا۔ اس بیانیے کے مطابق بینچ میں شامل ہم تین ججوں پر اثر ڈالا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے انصار عباسی سے کہا کہ ’آپ کی ایمان داری پر اس عدالت کو کوئی شک نہیں۔ انسان سے ناسمجھی میں بھی غلطی ہو جاتی ہے مگر آپ کو احساس تو ہو۔
انہوں نے کہا کہ ’ایک عام آدمی یہ حلف نامہ پڑھ کر یہی سمجھے گا کہ اس عدالت کے جج کسی کے زیر اثر ہیں۔
آپ کے اخبار میں کل بھی خبر چھپی ہیں جو ’سب جوڈیس‘ (عدالت میں زیر سماعت مقدمے) سے متعلق ہے۔ ان میں بین الاقوامی اداروں کا یک طرفہ موقف ہے کیا آپ نے ان سے اس عدالت کا پچھلا فیصلہ شیئر کیا تھا؟ یہاں عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا یہ شرم ناک نہیں ہے کہ میں بین الاقوامی ادارے کو عدالتی معاون بناؤں؟‘ یہ عدالت ڈکٹیٹ نہیں ہوگی۔
اس موقع پر عدالتی معاون ناصر زیدی نے کہا کہ اس سیاہی کے دور میں آپ کی عدالت ایک مشعل کی طرح ہے۔ ہم نے ہمیشہ اس عدالت کا احترام کیا ہے۔ انجانے میں بھی غلطی ہو جاتی ہے فرد جرم عائد نہ کریں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ میر شکلیل الرحمان کیوں پیش نہیں ہوئے؟ اس پر ان کے وکیل نے بتایا کہ ان کے اہل خانہ کورونا وائرس میں مبتلا ہیں اور وہ خود قرنطینہ میں ہیں۔
انصار عباسی نے کہا کہ وہ کبھی اس طرح عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں کرتے۔ انہوں نے بیان حلفی کے حوالے سے جو خبر دی تھی وہ ماضی کے طے شدہ معاملے کے بارے میں تھی نہ کہ زیر سماعت کیس کے حوالے سے تھی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو نہیں پتا تھا کہ حلف نامے میں سچ ہے جھوٹ ہے تو پھر آپ نے کیوں چھاپا؟۔
انصار عباسی نے کہا کہ بیان حلفی کے بارے میں رانا شمیم نے بتانا ہے، ہم نے رانا شمیم کا دعویٰ چھاپا اور ثاقب نثار کا بھی دعویٰ چھاپا کہ ایسا کچھ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال سے فرد جرم عائد نہیں ہونی چاہیے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ آپ نے نہیں کورٹ نے طے کرنا ہے اور آپ عدالت کو ڈکٹیٹ نہیں کر سکتے۔
اس موقع پر رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی نے کہا کہ عدالت کی تشویش کے باوجود اب دنیا گولبل ویلج ہے، اب کسی بین الاقوامی ادارے کو تبصرہ کرنے سے روک نہیں سکتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سب جوڈیس کا جو قانون ہے یہ عدالت اسے نظر انداز کر رہی ہے۔ اس پر لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے مگر آج کل ہر روز کوئی وزیر یا مشیر سب جوڈیس معاملات پر بیان دیتا رہا ہے یہ ہوتا رہے گا۔ انصار عباسی نے کہا کہ ’انہوں نے خبر چھاپتے وقت پوری احتیاط کی اور عدالت یا جج کا نام نہیں چھاپا مگر اس احتیاط پر یہ سمجھا گیا کہ شاید پوری عدالت پر سوال اٹھ گیا حالانکہ ایسا نہیں تھا۔
ان سے پوچھا گیا کہ اگر یہ بیان حلفی نہ ہوتا صرف بیان ہوتا تو بھی آپ چھاپ دیتے اس پر انصار عباسی نے کہا کہ ’اگر صرف بیان ہوتا تو وہ نہ چھاپتے۔ وہ قانونی دماغ نہیں ایک صحافی ہیں۔‘