بوٹی اور ووہٹی

بوٹی اور ووہٹی

دوستو، باباجی فرماتے ہیں کہ بریانی بغیر بوٹی کے اور جوانی بغیر ’’ ووہٹی‘‘ کے بے کار ہے۔۔ہمارے ایک دوست نے فون پر سوال کیا، رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میری گردن کے گرد رسی لپٹی ہوئی ہے اور مجھ کو کوئی گھسیٹ رہا ہے، اس کی تعبیر کیا ہوگی؟؟  ہم نے اسے بتادیاکہ تمہاری عنقریب شادی ہونے والی ہے۔۔کچھ دیر بعد ایک اور دوست کا فون آیا، فون پر رو رہا تھا، ہم نے پوچھا کیا ہوا؟ کہنے لگا۔۔ میری بیوی نے گھریلو ڈیکوریشن میں ڈپلوما کرنے کے بعد مجھ سے طلاق لے لی اسکا کہنا تھا میں گھر کے فرنیچروں اور پردوں سے میچ نہیں کرتا۔۔ایک صاحب شکار کررہے تھے اچانک ایک آدمی دوڑتا ہوا آیااور اسے کہا کہ، تم نے میری بیوی کو گولی مار دی ہے۔۔ شکاری نے اسے حوصلہ دیا اور کہا ، ناراض نہ ہو اگربدلہ لینا ہو تو میری بیوی وہ سامنے بیٹھی ہے۔۔بالی وڈ اداکارہ شبانہ اعظمی اوران کے شوہر معروف شاعر جاوید اختر سے انٹرویو ہو رہا تھا۔۔ اینکر نے پوچھا،شبانہ جی! جیسی شاعری جاوید صاحب کرتے ہیں، یہ تو بڑے رومانٹک ہوں گے؟" شبانہ نے جواب دیا۔۔رومانس تو کبھی انکو چھو کر بھی نہیں گزرا۔ اینکر نے حیرت سے جاوید صاحب کی طرف دیکھا، تو وہ بولے۔۔دیکھو بھائی! جو لوگ سرکس میں کام کرتے ہیں، وہ اپنے گھر میں الٹے تھوڑی لٹکے ہوتے ہیں ؟
ووہٹی سے آپ قطعی یہ نہ سمجھئے گا کہ ووٹ ڈالنے والے کو ’’ووہٹی‘‘ کہتے ہیں۔۔ ورنہ یہ بالکل اسی طرح ہوجائے گا جب ایک بچے سے ٹیچر سے ’’پائل‘‘ کی جمع پوچھی تو اس نے بڑی معصومیت سے جواب دیا، سرجی پائل کی جمع ’’پائلز‘‘۔۔۔ پنجابی میں ووہٹی بیوی کو کہتے ہیں۔۔باباجی نے ٹھیک ہی فرمایا ہے کہ جوانی بغیر ووہٹی کے بیکار ہوتی ہے۔ایک سردار جی اپنی محبوبہ کے گھر گئے، دستک دی، ان کی محبوبہ نے اندر سے سوال کیا، کون؟؟ سردار جی کے لبوں پر مسکراہٹ آئی، مونچھوں پر تاؤ دے کر کہا، میں۔۔محبوبہ پہچان نہ سکی، پھر سوال کرڈالا۔۔ میں کون؟ سردارجی برجستہ بولے۔۔ لے دس ! کملی توں گلابو ہور کون۔۔جب انہی سردار جی کو کسی نے بتایا کہ ۔۔باہر تمھارا دوست تمھارے بھائی کو مار رہا ہے،سردار جلدی سے باہر گیا، تھوڑی دیر بعد واپس آیا اور بولا ۔۔ایسے ہی چکر لگوا دیا وہ میرا دوست نہیں ہے۔۔ ہر کوئی سردار جی کی طرح معصوم نہیں ہوتا، خاتون خانہ نے جب کہا کہ ، میں نے گدھوں پر ریسرچ کی ہے وہ اپنی گدھی کے سوا کسی دوسری گدھی کو دیکھتا تک نہیں۔۔۔۔شوہرنے بیگم کی غلط فہمی دور کرتے ہوئے کہا، پاگل اسی لئے تو اسے گدھا کہتے ہیں۔۔۔
 پاکستانیوں کی اکثریت سے بیماری کی وجہ پوچھ لوتو برا سا منہ بنا کر کہتے ہیں،  یار نظر لگ گئی ہے۔۔ڈاکٹر نے جب ہمارے ایک دوست کی مسز کو کہا کہ آپ کے شوہر کو مکمل سکون کی ضرورت ہے، یہ نیندکی گولی رکھ لیں،خاتون خانہ نے پوچھا یہ انہیں کس وقت دینی ہے؟ توڈاکٹر نے معصومیت سے کہا۔۔یہ آپ نے خود کھانی ہے۔۔اسی طرح ہمارے ایک دوست کا کھیل کے دوران سرپھٹ گیا،غلطی سے سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی گیا،کافی دیر بیٹھا رہا،اتنے میں ایک نرس نے آکر پوچھا، ٹانکے لگوانے ہیں؟ وہ غصے سے بولا۔۔ نہیں جی ’’پیکو ‘‘کرانی ہے۔ایک میراثی کی بیوی مر گئی۔ اب میت پر وہ تو چپ بیٹھاتھا مگر مرحومہ کا ایک چاہنے والا دھاڑیں ما ر مار کر رو رہا تھا۔جب یہ رونا دھونا حد سے بڑھ گیا تو میراثی بولا۔۔ یار، دکھ نہ کرو ہم جلد ہی دوسری شادی کر لے گا۔۔باباجی نے ایک بار قصہ سنایا کہ ۔کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، ایک خاتون ہمارے پاس آئیں،کہنے لگیں، میں ایک سکول ٹیچر ہوں،میری ایک ڈاکٹر سے شادی طے ہوئی ہے، آج ان کا پہلا خط آیا ہے، کیا آپ پڑھ کر سنادیں گے کہ کیا لکھا ہے انہوں نے۔؟ ہم نے خط دیکھا، اور محترمہ کو مشورہ دیا، بی بی، آپ کسی میڈیکل سٹور والے سے رابطہ کرے ،ایسی لکھائی صرف وہی پڑھ سکتا ہے۔۔ شوہر جب گھر آیا تو دیکھا کہ گھر کے باہر اچھی خاصی بھیڑ لگی ہوئی تھی،اس نے بیوی سے پوچھا یہ اتنا رش کیوں جمع ہے ہمارے گھر کے سامنے۔۔ بیوی نے جواب دیا۔۔ کچھ نہیں، میں نے پڑوسیوںسے کہا ہے کہ ممبئی سے ہمارے گھر داماد جی آرہے ہیں۔۔شوہر کو حیرت ہوئی پھر سوال داغا تو پھر ہمارے گھر کے سامنے بھیڑ کیوں لگی ہے۔۔ بیوی شرماتے ہوئے بولی۔۔ وہ میں آج کل انگریزی سیکھ رہی ہوں ناں، اس لئے۔۔شوہر کو غصہ آگیا ، کہنے لگا، تمہاری انگریزی سے ہمارے گھر کے باہر لگے رش سے کیا تعلق ثابت ہوتا ہے؟؟۔۔ بیوی نے اپنے سرتاج کو سمجھاتے ہوئے کہا۔۔ میں نے پڑوسیوں سے انگریزی میں کہا کہ ممبئی سے ہمارے گھر ’’سنی لیون‘‘ آرہا ہے،بس یہ بات پورے محلے میں پھیل گئی اور دوردور سے لوگ ہمارے گھرکے سامنے جمع ہونے لگے۔۔ شوہر بے ساختہ ہنس پڑا۔۔ کہنے لگا۔۔دھت تیری، اری نیک بخت دامادجی کو انگریزی میں ’ ’سنی لیون‘‘ نہیں کہتے بلکہ ’’ سن ان لاء‘‘ کہتے ہیں۔۔
کچھ دن پہلے میںجاوید چوہدری کا ایک پرانا کالم پڑھ رہا تھا جو انہوں نے 6 جنوری 2004 میں لکھا تھا۔ اس میں اس نے ایک وفاقی وزیر کے متعلق حقیقی لطیفہ لکھا تھا۔۔ہمارے ایک وفاقی وزیر محترم کچھ ماہ پہلے راولپنڈی کی مری روڈ سے گزر رہے تھے۔ انہوں نے راستے میں ایک جنازہ دیکھا تو فوری طور پر گاڑی رکوائی اور سوگواروں میں شامل ہوگئے، جب لوگوں نے انہیں پہچان لیا تو وہ آگے بڑھے، کلمہ شہادت بلند کیا اور میت کو اپنا کندھا پیش کیا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ایک تو چارپائی ہلکی پھلکی ہے اور دوسرا لوگ انہیں حیران وپریشان نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ وزیر صاحب فوراً گڑبڑ پہچان گئے۔ انہوں نے قریب کھڑے نوجوان سے پوچھا کہ چارپائی اتنی ہلکی کیوں ہے تو نوجوان نے جواب دیا کہ ہم میت دفن کرکے آرہے ہیں، یہ چارپائی خالی ہے۔وزیر صاحب شرمندہ ہوگئے، کندھا واپس کھینچا اور اپنی گاڑی میںبیٹھ کرچلے گئے۔کسی خاتون نے نجومی سے پوچھا،نیا سال میرے لئے کیسا ہوگا؟۔۔ نجومی بولا ،اس سال تمہاری شادی ہوگی۔۔لڑکی نے کہا۔۔میرے دورشتے آئے ہیں، ماموں اور چاچا کے بیٹے کا،ان دونوں میں سے کون خوش نصیب ہوگا۔۔ نجومی نے کہا۔ ماموں کا بیٹا خوش نصیب ہوگا،تمہاری شادی چاچا کے بیٹے سے ہوگی۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اچھے دنوں کے انتظار میں ساری زندگی گزرجاتی ہے،پھر اچانک احساس ہوتا ہے کہ جو گزرگئے وہی اچھے دن تھے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

مصنف کے بارے میں