گو وطنِ عزیز میں کورونا کی نئی قسم کی ویسی بری حا لت تونہیں جو ہمسا یہ ملک بھا رت میں ہے۔وہا ں حا لت اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ اس کے دارلخلا فہ نئی دہلی میں ویک اینڈ پہ کر فیو نا فذ کر دیا گیا ہے۔ تا ہم ہمارے ہا ں بھی کورونا وائرس کی نئی قسم اومی کرون کے سامنے آنے کے بعد کورونا کے یومیہ مثبت کیسز میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور یو ںاس نے ابھی تک عوام کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ حکومت کا طرزِ عمل کورونا سے فتح کے شادیانے بجانے تک ہی محدود رہا، صحت سسٹم یا انفراسٹرکچر میں کوئی توسیع نہیں کی گئی۔ صحت کی جملہ سہولتیں عوام کو مل نہیں سکیں، کورونا کی جزوی واپسی اور اومیکرون کے پھیلائو نے عوام کو واقعی ایک بار الجھن میں ڈال دیا ہے۔ ملکی معاشی صورت حال ابتری کا شکا رہے۔ کوئی بنیادی بریک تھرو صحت سسٹم میں نظر آنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ عوام کی اقتصادی اور معاشی صورت حال اعصاب شکنی کی انتہائی سطح سے بھی نیچے آچکی ہے۔ طبی ذرائع کے مطابق کینسر نے بھی سر اٹھایا ہے ، دیگر امراض میں اضافہ کی شرح بھی تشویش ناک ہے۔ عوام کی جسمانی خستگی ان کی بیروزگاری، غربت، ماہانہ آمدنی میں جمود اور مہنگائی نے سوالیہ نشان بنادی ہے۔ ایک غیرمصدقہ سرکاری اطلاع کے مطابق عوام کی صحت زندگی کے عمومی تقاضے بھی پورے کرنے کے قابل نہیں۔ بھوک کے مسائل نے اندرون سندھ، بلوچستان اور کراچی کے شہری علاقوں میں بھی اندوہناک اثرات ظاہر کردیئے ہیں۔ محنت کش طبقات کو اب حکومت کے اقدامات، معاشی نتیجہ خیزی پر اعتبار نہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اقتصادی حالات کی بہتری کی اجتماعی حکومتی کوششیں جمود کا شکار ہیں۔ وزیراعظم ملک کے معاشی مستقبل کے حوالے سے کوئی یقینی حکمت عملی کا اشارہ بھی نہیں دیتے۔ علمی مناظرے کی دعوت دیتے رہتے ہیں۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیاہے کہ کورونا اور اومی کرون کی پانچویں لہر عوام کے لیے چیلنج بنی تو حکومتی اقدامات میں عوامی ولولہ انگیزی کا امکان مایوس کن رہے گا کیونکہ صحت سسٹم کو صحت کارڈز سے مشروط کرکے حکومت پوری دنیا کو یہ پیغام دے چکی ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی وہ اقدامات نہیں کرسکے جو حکومت نے پچھلے چار سال میں انجام دیئے ہیں۔ صحت کے شعبے میں اس درجہ خود اعتمادی کی یہ نادر مثال ہے۔ جبکہ صحت سسٹم کو ابھی قرونِ وسطیٰ سے اوپر لے جانے کے لیے تھر کے صحرا میں خواتین اور غریب تھری بچوں کی ہلاکتیں رکنے کا نام نہیں لے رہیں۔ اومی کرون اور کورونا کے سدباب کے حوالے سے جو اقدامات سامنے آئے ہیں، عوام صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کی جان نظام صحت کی فالٹ لائنوں کے خدشات اور مسائل سے کب نجات پائے گی۔ حکومت کی سیاسی مجبوریاں ناقابل بیان ہیں۔ حکومت نے بظاہر اعلان کے سہارے پورے ملکی نظام حکومت کو یرغمال بنایا ہے۔ وزیراعظم کو صحت کے سسٹم کو جدید ترین بنیادوں پر استوار کرنے کی فکر کرنی چاہیے مگر انہیں انقلاب کی خاموش آمد اور نچلے طبقات کی معاشی صورت حال کو دانشورانہ مباحث اور میڈیا ٹاکس کے ذریعے بلند کرنے سے دلچسپی ہے۔ اگلے دن انہوں نے عوام سے یہ توقع بھی وابستہ کی کہ وہ احتساب اور جنسی جرائم کے خاتمے میں ان کے ساتھ اشتراک عمل کریں، یعنی ایک جنگ کا آغاز کریں۔ آخر عوام کی معاشی حالت اور ان کی صحت انہیں اس طرح کے عہد آفریں معرکہ آرائی کے لیے ذہنی استقامت دے سکیں گے۔ ایک ماہر طبیب کا کہنا ہے کہ کورونا، اومی کرون اور درجن بھر بیماریوں کے علاج کے لیے غریب آدمی کون سے ہسپتال سے رابطہ کرے اور یہ صحت سسٹم اپنی مرکزیت کے ساتھ کہاں مل سکتا ہے جہاں وہ اپنے اہل خانہ کا علاج کراسکے۔ دوسری طرف کورونا اور اومی کرون سے متعلق صحت کے بنیادی مسائل سے نمٹنے میں علمی اور مالی مسائل کا حل بھی عوام کے لیے مشکل بنا ہوا ہے۔ میڈیا کے مطابق ابتدا میں اعلان کیا گیا تھا کہ بوسٹر ڈوز لگانے کا عمل یکم جنوری سے شروع کیا جائے گا تاہم پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ چونکہ ویکسینیشن سینٹر کے عملے نے شب و روز کام کرکے 7 کروڑ افراد کو ویکسین کی دو خوراکیں لگانے کا ہدف پورا کیا ہے۔ اس وجہ سے نئے سال کے پہلے دو روز ویکسی نیشن سنٹر بند رکھے جائیں گے۔ اس کے علاوہ کئی ممالک میں ویکسین کے حوالے سے ہونے والے امتیازی سلوک کی وجہ سے مکس اینڈ میچ بوسٹر ویکسین کا بھی مفت آغاز کیا جارہا ہے۔ مکس اینڈ میچ سے مراد یہ ہے کہ کسی فرد کو لگنے والی بوسٹر خوراک اسے ماضی میں لگائی گئی ویکسین سے مختلف ہو۔ تاہم بیرون ملک جانے کے خواہش مند افراد کی بڑی تعداد ایسا نہیں کرسکی تھی کیونکہ بہت سے ممالک قرنطینہ کے بغیر داخلے کی اجازت صرف ان مسافروں کو دے رہے تھے جنہیں ان کی جانب سے منظور شدہ ویکسین لگائی گئی تھی۔کو رونا کے صحت پہ اثرات کی بات کر یںتویہ بات تو پہلے ہی سامنے آچکی ہے کہ کورونا وائرس مریض کے گردوں کو متاثر کرسکتا ہے مگر جس کے اس عضو پر کیا اثرات ہوتے ہیں یہ اب تک واضح نہیں تھا۔ درحقیقت کووڈ 19 کا مرض براہِ راست گردوں کے اندر خلیاتی تباہی کا باعث بن سکتا ہے جس کے نتیجے میں گردوں میں زخم ہوسکتے ہیں۔ یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں دریافت کی گئی۔ نتائج سے ثابت ہوا کہ کووڈ کے مریضوں کے گردوں کے ٹشوز کو پہنچنے والا نقصان دیگر گروپس سے زیادہ تھا۔ تحقیق کے پہلے مرحلے میں یہ واضح ہوگیا تھا کہ کووڈ 19 سے گردوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ جس کے بعد محققین نے یہ تعین کرنے کا فیصلہ کیا کہ کورونا وائرس کیسے کام کرتاہے۔ اس مقصد کے لیے محققین نے چھوٹے مصنوعی گردے تیار کیے اور لیبارٹری میں ان میں گردوں کے مختلف خلیات کا اضافہ کیا گیامگر مدافعی خلیات ان میں شامل نہیں تھے۔ اس کے بعد ہر مصنوعی گردے کو کووڈ متاثر کیا گیا تاکہ تحقیقی ٹیم مشاہدہ کرسکے کہ کورونا وائرس گردوں کی خلیات پر براہِ راست کیا اثرات مرتب کرتا ہے۔ ایک بار پھر محققین نے گردوں میں زخم اور ان سگنلز کو دریافت کیا جو اس عمل میں کردار ادا کرتے ہیں۔ نتائج سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ بیماری کے بعد بہت زیادہ ورم یا کوئی اور اثر نہیں بلکہ کورونا وائرس براہِ راست کووڈ 19 کے مریضوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ محققین نے بتایا کہ تحقیق کے دوران ہم نے کورونا وائرس سے گردوں کو نقصان پہنچتے دیکھا، متاثرہ مصنوعی گردوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ وائرس براہِ راست خلیات کو نقصان پہنچاسکتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس کام کے ساتھ ہم نے معمے کا وہ ٹکڑا تلاش کرلیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ وائرس جسم پر کیسے تباہ کن اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گردوں میں زخم میں طویل المیعاد بنیادوں پر سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جس کا سامنا گردوں کو ہونے والی ہر انجری سے ہوسکتا ہے جبکہ گردوں کے افعال پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ کووڈ کے مریضوں کو بھی اس مسئلے کا سامنا ہوسکتا ہے اور اس سے ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ کووڈ کے مریضوں کے گردوں کے افعال متاثر کیوں ہوتے ہیں۔ صحت کے مسائل متنوع ہیں اور غربت تنوع کی معنویت کو نہیں جانتی، اسے حکومت سے ریلیف اور ملٹی پل وسائل درکار ہیں جو ایک فالٹ فری نظام بآسانی پہنچاسکے۔ ارباب اختیار عوام کے معاشی مسائل کو سمجھیں، انہیں مسائل کے پیچیدہ حل سے آگاہ کیجئے۔ اربابِ اختیار صحت سسٹم کو سہل الحصول بنائیں، عوام ذہنی دبائو سے نکلنے کے لیے حکومت کی طرف بے تابی سے دیکھ رہے ہیں۔