ہمارے ملک میں نیا سال ایک ایسی صورتحال میں شروع ہوا ہے جب سیاست و معاشرت کہیں بھی سکون نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان کھینچا تانی سارا سال ہی جاری رہی۔ موجودہ حکومت کو برسرِ اقتدار آئے تین سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے لیکن عوام نے تبدیلی کے نام پر جو امیدیں اس حکومت سے وابستہ کی تھیں ابھی تک ان کا دور دورتک نام نشان نظر نہیں آ رہا ہے۔ عوام ہر سال کی آمد پر کھلے دل سے امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت تبدیلی کے نعرے کے ساتھ برسرِ اقتدار آئی تھی اور اس کا کہنا تھا اب اس ملک کے تمام طبقات کے لئے یکساں مواقع میسر ہوں گے لیکن 2018ء سے 2022ء آ گیا ابھی تک تو کچھ نہیں بدلا اور اسی پرانے پاکستان کے رونے دھونے بڑھ گئے ہیں۔ مہنگائی نے عوام کا جینا دو بھر کیا ہوا ہے ہر روز مارکیٹ جائیں اسی چیز کی قیمت بدل چکی ہوتی ہے جو گزشتہ رو زخریدی گئی ہوتی ہے۔ عجیب صورتحال یہ ہے کسی دوکاندار کو فون کر کے قیمت کا دریافت کیا جائے تو وہ کسی چیز کی قیمت بتاتے ہوئے ساتھ یہ لقمہ بھی جڑ دیتا ہے کہ یہ قیمت صرف ابھی کے لئے ہے ممکن آپ خریدنے کی غرض سے آئیں تو قیمت بڑھ چکی ہے۔
جو معیشت اچھے دنوں میں بھی ہمارے ہاں ترجیحات میں نچلے زینے پر ہوتی ہے، وہ نچلے زینے سے بھی لڑھکنے کو ہے۔ حکومت نے پکڑ دھکڑ کر کے زرِ مبادلہ کے ذخائر 25 ارب ڈالر کے لگ بھگ کر لئے۔ حکومت اپنے وسائل پر انحصار بڑھانے کی بجائے ملکی و غیر ملکی قرضے حاصل کر کے وقت کاٹنے کی اسی پرانی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کی وجہ سے ہماری معیشت آج تباہی کے دھانے پر کھڑی نظر آتی ہے۔ گزشتہ برس کے دوران متعدد بار بجلی، گیس اور پیٹرولیم کی مصنوعات کے نرخوں میں بہت زیادہ اضافہ کیا گیا۔ ایندھن کے ان ذرائع کے نرخوں میں اضافے کا اثر مہنگائی بڑھنے کے عمل پر بھی مرتب ہوا اور اس کی رفتار تیز تر ہوتی گئی یوں جاری سال کے آغاز پر حکومت نے بجٹ پیش کرتے وقت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں جو معمولی سا اضافہ کیا تھا مہنگائی کی شرح اس سے کہیں زیادہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کے حالات پہلے سے بھی بد تر ہو گئے خاص طور پر سفید پوش طبقے کی مشکلات بڑھیں اور خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد
میں اضافہ ہوا۔سردیوں کے شروع ہوتے ہی گیس کی کمی کی وجہ سے لوڈ مینجمنٹ کرنا پڑی جو اس وقت بھی جاری ہے۔ ایندھن کے ان ذرائع کی قلت نہ صرف صنعتی و زرعی پیداوار پر اثر انداز ہوئی بلکہ اس سے لوگوں کی آمدنیاں اور روزگار کے مواقع مزید متاثر ہوئے۔ ملک میں معاشی سرگرمیاں سکڑ گئی تھیں اور بے روزگاری میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ہمارے اربابِ اختیار پاکستانی معیشت کو مستقبل میں درپیش خطرات سے بے نیاز ہو کر مختلف اداروں کے اعداد و شمار کے گورکھ دھندوںمیں الجھا کر قومی معیشت کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں گزشتہ 74 سال میں بد سے بد تر دور میں بھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ جس طرح ہمارا خسارہ دن بدن بڑھ رہا ہے اور دوسری طرف اندرونی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہو رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے ہر اہلِ وطن پریشان ہے مگر ہمارے معاشی اداروں میں بیٹھے ہوئے افلاطون اپنے ملک کے معاشی زمینی حقائق سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔ المیہ تو یہ ہے اقتصادی اور منصوبہ بندی کے اداروں میں بیٹھے اعلیٰ عہدیدار دو تین دہائیوں سے اپنے عہدوں پر براجمان ہیں جس میں سے صرف وزیرِ خزانہ بدلتے ہیں۔ ہمارے اربابِ اختیار کی ترجیحات کی وجہ سے ہمارے ملک کی معاشی پالیسی مسلسل صنعتی سے ہٹ کر عالمی اداروں کی مرضی و منشیٰ کے تحت تجارتی ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف برآمدات میں اضافہ اس بات کا عندیہ دے رہا ہے کہ ہمارا مالیاتی خسارہ مسلسل بڑھتا جائے گا۔اس تناظر میں دیکھیں تو ہمارا ملک معاشی تباہی کے کنویں میں گر رہا ہے۔ ایسے میں حکمرانوں کی جانب سے عوام کو ایک ہی امید دلائی جا رہی تھی کہ حکومت کی پالیسیوں کا پھل ملنا جلد شروع ہو گا اور سال 2021ء ترقی و خوشحالی کا سال ہو گا لیکن 2021ء معاشی اعتبار سے بہت برا سال ثابت ہوا۔ اگر معاشی اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو مہنگائی سے لے کر کل ملکی قرضے، ملک کا امپورٹ بل اور بے روزگاری اضافہ ہوتا نظر آیا۔
2021ء پاکستان کے عوام کے لئے کچھ اچھی یادیں چھوڑ کر نہیں گیا۔ مہنگائی، تجارتی خسارہ اور بیروزگاری کے مسائل انتہائی صورت اختیار کر چکے تھے۔ مایوسی جو ہمارے معاشرے کا ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے اس میں پورے سال کے دوران اضافہ دیکھنے میں آیا۔ گزشتہ سال میں درآمدات میں 27 فیصد اضافہ ہوا جو کہ 58 ارب ڈالر تھیں، لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری اشیائے خوراک میں اضافہ سب سے زیادہ ہوا جو کہ گزشتہ سال کی درآمدات کے مقابلے میں 54 فیصد زیادہ تھیں۔ خوراک کی درآمدات میں 54 فیصد اضافہ حکومتی ترجیحات اور غیر معمولی پیداواری بحران کی نشاندہی کرتا ہے۔ زرعی شعبہ روزگار مہیا کرنے والا سب سے بڑا شعبہ ہے مگر زراعت کی جانب ناکافی حکومتی توجہ اس شعبے کی نمو کے لئے رکاوٹ بن رہی ہے۔
المیہ تو یہ ہے کہ حکومت سے قبل کشکول سے چھٹکارا پانے کا دعویٰ کرنے والی پاکستان تحریکِ انصاف کی موجودہ حکومت کے وزیراعظم اور وزیرخزانہ اپنے سارے دورِ اقتدار میں عالمی مالیاتی اداروں کی دہلیز پر سوٹ کیس اٹھائے پھرتے رہے ہیں اور قرضوں کا حصول بڑی شد و مد سے جاری رکھا۔ سٹیٹ بینک کے مطابق پاکستان پر مجموعی قرض 40 ہزار 27 ارب روپے ہو گیا ہے۔ مرکزی بینک کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان پر بیرونی قرض 13 ہزار 811 ارب روپے ہو گیا اور اندرونی قرض 2 ہزار 467 ارب روپے پر جا پہنچا ہے۔ اس میں سے طویل مدتی قرض 20 ہزار 12 روپے اور مختصر مدت کا قرض 6 ہزار 416 ارب روپے ہے۔ ملک قرضوں کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے، صورتحال یہ ہے کہ قرض اتارنے کے لئے اور سود کی ادائیگی کے لئے مزید قرض لینا پڑ رہے ہیں۔
اب نئے سال میں ہمارے اربابِ اختیار کو ملک کے بہتر اور حقیقی مفاد کے لئے سنجیدہ ہو جانا چاہئے، برآمدات بڑھانے اور درآمدات کو کم کرنے کی عملی اور حقیقی کوششیں کرتے ہوئے مالیاتی خسارے کو کم کرنا چاہئے اور اپنے ملک کے زمینی حقائق کے مطابق اپنی پالیسیاں بنانا چاہئے اسی میں ملک و قوم کی ترقی کا راز پنہاں ہے۔ لوگوں نے 2018ء میں اس حکومت کو ووٹ دیتے ہوئے یہ امید لگائی تھی کہ پی ٹی آئی برسرِ اقتدار آئے گی تو ان کو بھی کوئی امیدوں بھرا سال دیکھنا نصیب ہو گا لیکن اس حکومت نے اپنے دورِ اقتدار میں جو کچھ کیا اس سے ان کے مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس طرح پچھلا سال بھی انہیں مایوسی گھٹا ٹوپ اندھیرے میں غرق کر کے رخصت ہو گیا اور ایک نیا سال 2022ء کی صورت میں ان کی زندگی میں نئی امیدوں کی جوت جگانے کے لئے شروع ہو چکا ہے ہماری دعا اللہ پاک اس سال وطنِ عزیز کے عوام کے تمام مصائب کو ختم کر دیں۔