ہمارے قائدین کس قماش کے لوگ ہیں جن کو اپنی زبان، حلف یا دستخطوں کا بھی پاس نہیں، کمیشن کے وقت کی قسم ہو، قبل از وقت نکاح نامے یا الیکشن کمیشن میں ممنوعہ فنڈنگ سے گریز کے پارٹی سرٹیفکیٹ پر دستخط ہوں، وزارتِ عظمیٰ یا اعلیٰ عدلیہ کے حلف ہوں یہ سب ٹکے ٹوکری کرنے میں ہم دیر نہیں لگاتے، اور پھر نادم ہونا تو درکنار انتہائی ڈھٹائی سے قوم کے عظیم شہدا کی یادگار پر کھڑے ہو کر جھوٹ بھی بول لیتے ہیں، اللہ کو حاضر ناظر جان کر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی قسم اٹھاتے ہیں اور پھر انتہائی بے شرمی سے اسکے جھوٹے ہونے کا اعتراف کرتے ہیں، کہتے ہیں پچھلے سال کی فلاں تاریخ سے ہم نے سیاست چھوڑ دی تھی، مگر بد قماش تو وہ لوگ بھی ہیں جو ایسے بیانات پر واہ واہ اور سبحان اللہ کی آواز بلند کرتے ہیں، سو جوتے اور سو پیاز کھانے کے بعد بھی اقتدار کی خیرات مل جائے تو قوم کے مجرموں کے بوٹ چاٹنے پر تیار ہو جاتے ہیں اور ان کو جوابدے بنانے کی ہمت نہیں رکھتے- جی ہاں میں پچھلے چھ سال سے اس ملک کی سیاست اور معیشت کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کی بات کر رہا ہوں جو اس نظام کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں - اور وہ ہیں عمران خان، جنرل ریٹائرڈ باجوہ اور جنرل ریٹائرڈ فیض حمید جو انتہائی ڈھٹائی سے پورے نظام کا منہ چڑا رہے ہیں، خاص کر عمران خان جو اپنی چھ سال سے جاری سازش بے نقاب ہونے کے باوجود بھی جس اعتماد سے خود کو اس قوم کا مسیحا ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ انتہائی شرمناک ہے، اب تحریک انصاف کے استعفوں کو ہی لے لیں، یہ کیسے عجیب یوتھئیے ہیں جو اصولوں پر از خود نہیں بلکہ لیڈر کے حکم پر پہلے سے لکھے ایک جیسے الفاظ کی تحریر پر چارو ناچار دستخط کرتے ہیں اور پھر انتظار کرتے ہیں کہ ان کااستعفی قبول ہوا یا نہیں، ریاستِ مدینہ بنانے کے دعویدار ان کے قائد جو مخالفین کیخلاف اسلامک ٹچ دینے سے باز نہیں آتے اپنی مبینہ ناجائز بیٹی ٹیریان وائٹ کی ولدیت متعلق ہاں یا ناں کا جواب دینے سے بھی انکاری ہیں - مگر پھر دوسری طرف استعفے قبول کرنے والوں کی اخلاقی پستی کا عالم یہ ہے کہ تردید نہ ہونے کے باوجود تصدیق کرنے کے نام پر کئی کئی ماہ استعفے قبول نہیں کرتے یا آسان قسطوں پر کرتے ہیں کہ الیکشن نہ کرانے پڑیں، کہتے ہیں اس بات کی یقین دہانی کرنی ہے کہ استعفے کسی دباؤ میں تو نہیں دئیے، اب سپیکر اسمبلی راجہ پرویز اشرف کے پاس کونسی ایسی بلڈ پریشر والی مشین ہے جو دباؤ کا پتہ چلاتی ہے اور پھر ویسے بھی جو شخص دباؤ میں آ کر کسی بھی دستاویز پر دستخط کرنے کا اعتراف کرے کیا اسے رکن اسمبلی رہنے کا حق ہونا چاہئے؟ یہ لوگ اپنے نکاح ناموں پر نجانے کس دباؤ میں دستخط کرتے ہونگے، بظاہر استعفیٰ دینے اور قبول نہ کرنے والے دونوں ہی کسی نہ کسی دباؤ کا شکار بزدل لوگ ہیں جو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، دونوں ہی ایک جیسے بے اصولے ہیں، اندازہ کریں کہ کئی ماہ پہلے استعفیٰ دینے والے بعد میں استعفے قبول نہ کرنے کی دہائی دے رہے ہیں، عدالتوں کو کہتے ہیں ہمارے استعفے قبول نہ کریں، یہی وہ اخلاقی دیوالیہ پن اور سیاسی گھناؤنا پن ہے جس کو کلف لگی وردیوں، شیروانیوں اور کاسمیٹک سرجری کے پیچھے چھپایا جاتا ہے۔ معاشی طور پر دیوالیہ ہونے سے ہم بچ بھی گئے تو اخلاقی طور پر دیوالیہ ہونے سے ہمیں کون بچائے گا؟
نواز شریف اور مریم نواز لندن میں بیٹھ کر پاکستانی ووٹر کے لئے جو بیانیہ تراش یا تلاش کر رہے ہیں اس طرح کے فارمولہ بیانیے اب نہیں بکیں گے- جماعت اور لیڈروں کے سیاسی بیانیے کے پیچھے ان کی سیاسی سوچ اور اس کے لئے تسلسل کے ساتھ کی گئی جدوجہد کی ایک تاریخ ہوتی ہے، ن لیگ کے میڈ ان لندن تازہ ترین بیانیے کے پیچھے پی ڈی ایم اور خاص کر ن لیگ کی چھ سالہ جدو جہد ہم سب کے سامنے ہے، بطور وزیر اعظم چپ کر رہ کر سازش برداشت کی اور گھر بھیج دئیے گئے، اسکے باوجود بھی مجھے کیوں نکالا کا سوال کسی نامعلوم شخص سے کرتے رہے، جعلی مقدمات بھگتے اور جیل گئے، لندن جا کر تھوڑی ہمت دکھائی مگر پھر ایکسٹینشن کے قانون پر ”بغیر دباؤ والے دستخط“ کئے اور پھر اس ”گناہ“ کی توبہ مانگی، عدم اعتماد کی تھالی سامنے آتے ہی چٹ کر گئے، جنرل فیض کے نیا آرمی چیف بننے کے امکان پر دباؤ میں آ کر جنرل باجوہ کی ”نیوٹریلیٹی“ کے دباؤ میں عدم اعتماد کا حصہ بنے اور اْسے وہ این آر او دے دیا جو سپریم کورٹ کے دباؤ کے باعث جنرل مشرف کو بھی نہیں دیا تھا، اب ایک بار پھر نظریں قاضی فائز عیسی کی سپریم کورٹ اور ان کے فیض آباد دھرنے متعلق زیر التوا نظر ثانی کے فیصلے پر ہیں جو جنرل مشرف کے متعلق سپریم کورٹ کا مشہور 13 جولائی والا فیصلہ ثابت ہو سکتا ہے، اصولی طور پر ہونا تو یہی چاہئے مگر پھر سیاستدان اپنی ٹانگوں پر کب کھڑے ہونگ؟ بظاہر عمران خان اور نواز شریف جنرل ریٹائرڈ باجوہ کا احتساب نہ کرنے کے حوالے سے ایک پیج پر آ چکے ہیں۔ جنرل فیض حمید کیساتھ رائیونڈ کی جائداد کا جھگڑا بھی طے ہوتا نظر آ رہا ہے، قوم کا اس جائداد سے کیا تعلق۔
اب اگر معاشی حالات کی طرف نظر دوہرائیں تو اس محاذ پر بھی آئی ایم ایف کیساتھ مذاکرات میں سارے ”مشکل فیصلے“ اشرافیہ سے زیادہ غریب عوام کے لئے مشکلات پیدا کرتے نظر آتے ہیں، جنرل ضیاء الحق کے دریافت شدہ اور تراشیدہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے بھی ہمت کر کے اس وقت کی اعلیٰ سول و ملٹری بیوروکریسی کی پیٹرول پھونکتی بڑی گاڑیوں پر پابندی لگا دی تھی اور انہیں ہزار سی سی کی چھوٹی گاڑیوں میں بیٹھا دیا تھا، مگر یہاں تو عدم اعتماد جیسے آئینی طریقے سے وزیر اعظم بننے کے دعویدار شہباز شریف میں تو اتنی ہمت بھی نہیں، خبریں چلی کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے تمام سول و ملٹری اشرافیہ کے ملکی و بیرونی اثاثوں کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا ہے، پھر بھلا ہو ہمارے امریکہ سے ”دفاعی تعلقات“ کا کہ امریکی فوجی اشرافیہ نے پاکستان میں اپنے ”اثاثوں“ کو بچا لیا اور آئی ایم ایف نے امریکہ کے لئے ناکارہ ہماری غیر مسلح سویلین بیوروکریسی کے اثاثوں کو منظر عام پر لانے کے مطالبے پر ہی اکتفا کیا، یہ اور بات ہے کہ ہماری سویلین بیوروکریسی کے زیادہ تر کام اور فیصلے ہماری نیوٹرل قیادت ہی کرتی ہے، اور ہمیشہ کی طرح ”نہان والی“ شہباز شریف کی نیوٹرالائزڈ سویلین حکومت نے ہی ”پھڑے جانا“ ہے، اس ملک کا المیہ دیکھیں کہ سول ملٹری اثاثوں کو ظاہر کرنے والے آئی ایم ایف کے ابتدائی مطالبے سے جب پتہ چلا کہ(صفحہ3پر بقیہ نمبر1)
اس سے پاکستانی اشرافیہ کے ساتھ ساتھ پاکستان میں امریکی عسکری اثاثے بھی ظاہر ہو جائیں گے تو بات پاکستان کی سویلین بیوروکریسی کے اثاثوں پر آ کر رکی، 57 سال میں 53 سال بلاواسطہ اور باقی عرصے بلواسطہ حکومت کرنے والی نیوٹرل قیادت کے ملکی اور غیر ملکی اثاثوں کا معاملہ آئی ایم ایف اور چڑی بدمعاش حکومت کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ آئی ایم ایف کی یہ نیوٹریلیٹی سمجھ سے بالا تر نہیں، ایک اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کی جو خیرات ملنے جا رہی ہے اس پر ممکنہ عوامی ردّ عمل کا مقابلہ اسلام آباد، لاہور، پشاور یا کراچی کی پولیس تو کرنے سے رہی-
معاشی بحران پر ممکنہ عوامی رد عمل کو کنٹرول کرنے کا بندوبست بھی کر لیا گیا ہے، حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کی میز پر غریب آدمی کی لاش کا پوسٹ مارٹم جاری ہے اور ایسے میں بھوک، افلاس اور بے روزگاری سے تنگ عوام کی تفریح طبع کے لئے حکومت اور میڈیا نے مل کر انتظامات کئے ہیں، فواد چودھری اور شیخ رشید کی گرفتاری سے لیکر عمران خان کی جیل بھرو تحریک کی دھمکی کی خبریں پیٹرول پمپوں اور مہنگے آٹے کے لئے بھی ترستے عوامی جذبات کے سورج کو گرہن لگا رکھا ہے، فواد چودھری کے آنسو ہوں یا شیخ رشید کو لگے دھکے یا عمران خان کی روزانہ شام 5 بجے کی آہ و بکا سب دیگچی کے ابلتے پانی کی بھاپ کی لوری ہیں جو غریب کے خالی پیٹ بچوں کو بھوکا سلانے کا ہتھکنڈا ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ آئی ایم ایف ڈیل کے ایک ارب ڈالر ملنے تک ٹی وی پر سنائی اور دکھائی دینے والی ہتھکڑیوں کی جھنکار سے عوام کو بہلایا پھسلایا جا رہا ہے اور شاید عمران خان، شیخ رشید اور فواد چودھری ٹائپ لوگ ایک سکرپٹ کے مطابق چل رہے ہیں، وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ڈالر اور پیٹرول کی قیمت بنی گالہ کے آسمان کو چھو رہی ہو اور عمران خان ٹی وی پر آ کر صرف اپنی جماعت کے خلاف مقدمات اور گرفتاریوں کی بابت جیل بھرو تحریک کی بات کر رہے ہوں، یہ سیاسی نا پختگی نہیں عوام کے ساتھ کی جانے والی وہ سیاسی چالاکی ہے جس کا حصہ اقتدار کی سیاست کرنے والی تمام سیاسی و دیگر قوتیں بن چکی ہیں، مگر پھر عمران خان پر قاتلانہ حملے کے بعد اب عوامی جلسوں کی سیاست ویسے ہی دفن ہو چکی ہے اور اقتدار کا لنگڑا عاشق وصال کی بھیک کا طالب ہے، حکمران پی ڈی ایم کو بھی کالعدم تنظیموں کی دھمکی نے تنظیمی اجلاسوں تک محدود کر دیا ہے، تو ایسے میں عوام کو درپیش معاشی مسائل پر بات کون کریگا؟ جس طرح فیٹف (FATF) کی خاطر عمران خان حکومت میں قانون سازی کے لئے نیوٹرل حضرات قومی اسمبلی میں متحرک ہوئے تھے اسی طرح آئی ایم ایف ڈیل پر بھی اسمبلی سے باہر غیر جانبداری کا شاندار فضائی مظاہرہ حیران کن نہیں۔
دھشت گردی کے واقعات نے بھی عوام کو اْسی طرح ڈرا دیا ہے جس طرح جنرل ضیاء الحق کے دور میں دھماکوں نے جمہوریت بحالی تحریک کیساتھ کیا تھا، تو ایسے میں پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں عام انتخابات کیسے ہونگے اور کیا الیکشن نہ ہونے کا آئینی اور قانونی راستہ نکالنا بلکل ناممکن ہے؟ مارشل لاء کو جائز قرار دینے کے لئیے ماورائے آئین نظریہ ضرورت شاید پہلی بار جمہوری عمل کے تسلسل کے لئے ”مکمل انصاف“ کے نام پر آئینی طور پر استعمال کیا جائے اور انتخابات کی تاریخ کا اعلان آئی ایم ایف ڈیل اور عمران خان کو ان کی سیاسی منافقت پر ”سبق سکھانے“ کے بعد کسی وقت ہو سکتا ہے- سیاسی منافقت کی ایک مثال عمران خان کی جنرل باجوہ سے اعلانیہ نفرت اور جنرل فیض سے مرشدانہ عقیدت ہے جس کا نام وہ اب بھی انتہائی ادب و احترام سے لیتے ہیں۔ ان دونوں میں فرق کیا ہے یہ سوال آج تک ان سے کسی نے نہیں کیا؟ شاید یہ وہی فرق ہے جو ان کے نزدیک اب ریحام خان اور بشریٰ بی بی میں ہے۔
مذکورہ صورت حال میں سیاستدانوں کو اب صرف الیکشن جیتنے اور اقتدار میں آنے کی سیاست سے ہٹ کر بھی سوچنا ہو گا۔ آئی ایم ایف کی ڈیل ہو بھی جائے اور الیکشن جب بھی ہوں کچھ بنیادی اصولوں اور سیاسی قدروں پر اتفاق ہونا ضروری ہے، یہ اتفاق ماضی قریب میں آئین کیخلاف جرائم پر مٹی ڈال کر نہیں ہو سکتا، یہ کرپشن کی گردان 1990 کے عشرے میں بھی چلائی گئی اور پچھلے چھ سال میں بھی، مگر ثابت یہ ہوا کہ اس کا مقصد احتساب نہیں سیاست اور سیاستدانوں کا میڈیا ٹرائل تھا، مسئلے کا حل عدالتی کاروائیاں نہیں بلکہ کچھ بنیادی اصولوں پر اتفاق ہے اور وہ یہ کہ گذشتہ چھ سال میں آئین کے خلاف جرائم پر ذمے داران یا تو اعترافِ جرائم کریں اور قوم سے معافی مانگیں اور متعلقہ حکومت ان کو صدارتی معافی دے وگرنہ ان کو جنرل مشرف کی مانند کٹہرے میں کھڑا کریں، اگر ن لیگ یا پی ڈی ایم اس حوالے سے محض اقتدار کی لالچ میں کوئی لائے عمل دینے سے گریزاں ہے تو پھر یہ قائدینِ ملت اور ان کی ملت کوہلو کے بیل کی مانند اسٹیبلشمنٹ کی راہٹ میں جْتے رہیں گے۔