اسلام آباد: وفاقی حکومت اور خیبر پختونخوا و پنجاب کی نگران حکومتیں اس بات پر متفق ہیں کہ دونوں صوبوں میں انتخابات 90 دن بعد نہیں بلکہ اکتوبر یا نومبر میں قومی اسمبلی کے انتخابات کے ساتھ ہی ہوں گے۔
انگریزی اخبار "ڈان" کی رپورٹ کے مطابق گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی نے پنجاب میں اپنے ہم منصب بلیغ الرحمٰن اور نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی سے ملاقات کی اور اس بات پر اتفاق کیا کہ موجودہ حالات میں ملک علیحدہ علیحدہ انتخابات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
ملاقات میں یہ بھی اتفاق کیا گیا کہ اس لیے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اگست میں وفاقی حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد رواں برس کے آخر میں کروانے چاہئیں۔ وفاقی اتحاد نے بھی یہ اعلان کردیا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات 90 روز بعد کرانے کے لیے نئی قانون سازی کی ضرورت نہیں۔
گورنر پنجاب نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان 2 علیحدہ علیحدہ انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس مشق پر اربوں روپے خرچ ہوں گے۔ اس بیان سے انہوں نے واضح اشارہ دیا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات وفاقی حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد کرائے جائیں گے۔
بلیغ الرحمٰن نے تبصرہ کیا کہ رواں سال کے آخر میں عام انتخابات ہونے ہی ہیں، اس لیے ملک کی معاشی پریشانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے 2 صوبوں میں قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ بےجا لگتا ہے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بھی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 90 روز کے بعد پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے انعقاد کے لیے نئی قانون سازی کی ضرورت نہیں۔ متعلقہ اداروں کو 90 روز کے اندر انتخابات نہ کرانے کی ٹھوس وجوہات سے آگاہ کرنا ہوگا۔
وفاقی حکومت کے باوثوق ذرائع نے بتایا کہ تمام حکومتی اتحادی متفقہ طور پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات ایک ہی تاریخ (غالباً رواں برس اکتوبر یا نومبر) پر کرانے پر متفق ہیں۔
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے بھی لاہور میں احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو میں صوبوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات ایک ہی ساتھ ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کے حالات ایسے نہیں کہ بار بار الیکشن ہوں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ پورا سال ہی الیکشن ہوتے رہیں تمام انتخابات ایک ساتھ ہونے چاہئیں۔
پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کی خواہش پر پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کی جانب سے دونوں اسمبلیوں کو تحلیل کیے 20 روز سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ پی ٹی آئی نے 9 فروری کو ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں اپنی شرکت کو پارٹی رہنماؤں کو نشانہ نہ بنائے جانے اور پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے مشروط کیا ہے۔
اس وقت بظاہر پی ٹی آئی کی صفوں میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے پر مایوسی کا عالم ہے۔