انقرہ، دمشق : ترکیہ اور شام میں گزشتہ روز آنے والے 7.8 شدت کے زلزلے سے ہلاکتوں کی تعداد 5000 سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ 6 ہزار کےقریب عمارتیں منہدم ہوگئی ہیں۔ ہزاروں افراد زخمی اور ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ ترکی میں 7 روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ہے۔
ترکیہ کے آفات سے نمٹنے والے قومی ادارے کے مطابق ملک میں زلزلے سے اب تک 2921 ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ شام سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اب تک زلزلے سے کم سے کم 1444 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد اس سے آٹھ گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔ ہلال احمرترکی نے امدادی سامان لے جانے والے رضاکاروں کو ہدایت دی گئی ہے کہ گاڑیوں پر متاثرہ علاقوں کا رُخ نہ کریں۔ رضاکاروں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ امدادی سامان لے جانے کے لیے گاڑیوں پر متاثرہ علاقوں کا رُخ نہ کریں۔ان کا کہنا ہے کہ گاڑیاں سڑکوں پر 50 میٹر گہری کھائی میں گِری ہیں۔ سڑکوں پر برف بھی ہے۔
انہوں نے لوگوں سے مطالبہ کیا ہے کہ ہلال احمر کو کھانا اور گرم رہنے کے لیے دیگر سامان جیسے کمبل، کوٹ اور بوٹ عطیہ کریں تاکہ ایسی چیزوں کو آگے پہنچا کر تقسیم کیا جاسکے۔ اس سے قبل خون کے عطیہ کا بھی مطالبہ کیا تھا تاکہ زخمیوں کو بچایا جائے۔
ترکیہ میں قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے کے مطابق ملک میں زلزلے سے اب تک 2921 ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ 15834 لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ دوسری طرف شام میں ہلاکتوں کی تعداد 1444 ہو چکی ہے۔ مجموعی طور پر اب تک زلزلے سے 4365 ہلاکتوں کی تصدیق کی گئی ہے۔
ترکی اور شام میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں لیکن اس دوران موسم ایک بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے اور جگہ جگہ بارش اور شدید ٹھنڈ کے باعث امدادی کارکنان کو مشکلات کا سامنا ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ہمیں لگا کہ قیامت آگئی ہے۔ تولن اکایا دیاربکر کی رہائشی ہیں۔ یہ جگہ زلزلے کے مرکز سے مشرق میں کوئی 180 میل کی دوری پر واقع ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ابھی پہلے زلزلے کے غم سے اپنے آپ کو باہر نکالنے کی کوشش میں تھیں کہ دوسرے زلزلے نے انہیں آن لیا۔
انھوں نے بتایا کہ وہ بہت سہمی ہوئی ہیں۔ میں نے اسے بہت شدت سے محسوس کیا کیونکہ میں بالائی منزل پر رہتی ہوں۔ ہم افراتفری میں باہر کی طرف بھاگے۔ میں اب اپنے اپارٹمنٹ کی طرف نہیں جا سکتی ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اب آگے کیا ہو جائے گا۔‘
ترکی میں پہلے زلزلے کا مرکز غازی عنتیپ تھا اور اس کی شدت 7.8 تھی جبکہ دوسرے زلزلے کی شدت 7.5 تھی اور یہ جگہ پہلے زلزلے کے مرکز سے شمال میں 80 میل کی دوری پر کہرمان مرعش صوبے میں واقع ہے۔
ملیسا سلمان کہرمان مرعش کی رہائشی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زلزلے والے زون میں رہنے کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اس طرح کے جھٹکے لگتے رہتے ہیں۔مگر ان کے مطابق آج جو ہوا یہ زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ہمیں لگا کہ یہ قیامت ہے۔
ہالس اکتیمر دیاربکر کے رہائشی ہیں۔ وہ ان پہلے لوگوں میں شامل تھے جو پہلی بڑی عمارت گرنے کے بعد اس جگہ تک پہنچے اور پھر ملبے سے لوگوں کو بچانے کی کوششیں شروع کر دیں۔
ان کے مطابق ہم تین لوگوں کی جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔ مگر دو لوگ مر چکے تھے۔ دسرے زلزلے کے بعد میں کہیں نہیں جا سکا۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اب انہیں میری مدد کی ضرورت ہوگی۔