لاہور میں میاں شہباز شریف کی دعوت پرآصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی ن لیگی قیادت سے ملاقات کو سیاسی حلقوں میں بہت اہمیت دی جا رہی ہے،مگر صحافتی حلقوں میں اس ملاقات کو صرف برف پگھلنا قرار دیا جا رہا ہے،اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے دونوں جانب سے ماضی کے اختلافات کا بھی ذکر کیا گیا جو اس بات کی واضح شہادت ہے کہ ملک کی دو بڑی اپوزیشن جماعتوں میں اب بھی اختلافات کی دھند کی چادر پھیلی ہوئی ہے،اگر چہ بظاہر نواز شریف کی ہدایت پر شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کی تحریک عدم اعتماد بارے تجویز سے اتفاق کر لیا مگر اسے پی ڈی ایم کی رضامندی اور ارکان کی مطلوبہ تعداد پوری ہونے سے مشروط کر دیا گیا ہے ،یعنی گریباں اب بھی چاک ہیں اور گلے ملنے کے باوجود سینوں میں جھجک موجود ہے،شہباز شریف نے اس موقع پر بر ملا کہا کہ پارٹی میں اس حوالے سے اختلاف ہے مگر نواز شریف یکسو ہیں مطلب پارٹی مؤقف پارٹی قائد سے مختلف ہے،اس ملاقات کی اہم بات دونوں جماعتوں کی طرف سے عمران خان حکومت کو آئینی مدت پوری کرنے کی مہلت دینا ہے،جس کا ثبوت یہ ہے کہ دونوں جماعتوں کی قیادت نے حکومت مخالف تحریک اور حکومت کو گھر بھیجنے کی تجاویز سے زیادہ الیکشن اور الیکشن کے بعد حکومت سازی کے معاملہ پر گفتگو کی ،جو اس بات کی گواہی ہے کہ دونوں جماعتیں حکومت مخالف مشترکہ تحریک پر ابھی رضامند نہیں ہیں،اور دونوں میں اس حوالے سے طریق کار پر اختلاف بھی موجود ہے،شہباز شریف کی دعوت پر زرداری اور بلاول کی ماڈل ٹائون میں شہباز شریف کے گھر آمد اور مریم نواز کی بھی ملاقات میں شرکت سے محسوس ہوتا ہے کہ شہباز شریف کا بیانیہ پس پشت چلا گیا ہے اور نواز شریف کے بیانیہ کو اپناتے ہوئے پارٹی کے مفاہمت پسند رہنماؤں نے پسپائی اختیار کر لی ہے،مگر شہباز شریف نے بھی ہمت نہیں ہاری اور پیپلز پارٹی کی تجاویز کو پی ڈی ایم کی رضامندی اور ارکان کی مطلوبہ اکثریت کی حمایت سے مشروط کر دیا۔
اس ساری صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے یہ ملاقات بس رسمی سی تھی اور حکومت کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دینا تھا کہ ہماری بھی سنو ورنہ ہم اکٹھے بیٹھ سکتے ہیں تو مشترکہ جدو جہد کا آغازبھی کیا جا سکتا ہے،جس کا واضح ثبوت یہ کہ پیپلز پارٹی فروری میں اسلام آباد کی طرف مارچ اور دھرنے کے مؤقف پر قائم ہے مگر ن لیگ کی طرف سے اس کی واضح حمایت نہیں کی گئی،اگر چہ مشترکہ لانگ مارچ پر بھی گفتگو کی گئی،مگر تنہا پرواز بھی جاری رہے گی،ذرائع کا کہنا ہے کہ ملاقات کے آغاز میںمریم نواز اور بلاول زرداری اکھڑے اکھڑے رہے اورآپس میں ٹھیک طریقے سے بات چیت نہ کی جبکہ بلاول نے شہباز شریف کی ایوان میں اپوزیشن کو متحد رکھنے پر تعریف بھی کی اور ان کا شکریہ بھی ادا کیا،مریم نواز کے ذریعے آصف زرداری کا نواز شریف سے رابطہ بھی ہوا،زرداری نے اس موقع پر شکوے شکایات بھی کئے،اندرون خانہ حالات سے واقفان کا کہنا ہے کہ نواز شریف نے زرداری کو یقین دلایا کہ وہ ان کے ساتھ ہیں اور پارٹی میں اب بھی ان کو اہمیت حاصل ہے،اس لئے دونوں نے آ پس میں براہ راست رابطوں پر اتفاق کیا،ملاقات کی اہم ترین پیش رفت یہی ہے کہ زرداری اور نواز شریف میں بلا واسطہ رابطوں پر اتفاق بھی ہو گیا ہے،نواز شریف نے زرداری کو لندن آکر ملاقات کی بھی دعوت دی،یہ قربت اس بات کا ثبوت ہے کہ نواز شریف بحفاظت وطن واپسی کی راہ ہموار کر رہے ہیں،یادش بخیر مشرف دور میں جب دونوں پارٹیوں کی قیادت بیرون ملک تھی شریف خاندان نے معاہدہ کے تحت دس سال کیلئے رضا کارانہ جلا وطنی اختیار کر رکھی تھی اس وقت لندن میں نوابزادہ نصراللہ مرحوم کی قیادت میں دونوں جماعتوں نے میثاق جمہوریت کیا،جس کے فوری بعد پہلے بینظیر اور ان کے پیچھے پیچھے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تحریک انصاف کی حکومت ابتداء سے جس دگرگوں صورتحال کا شکار ہے اس میں اپوزیشن کیلئے بہت سے مواقع تھے کہ وہ حکومت سے نجات حاصل کر لے مگر شہباز شریف کی مفاہمانہ پالیسی کی وجہ سے اپوزیشن کوئی ایسی کوشش نہ کر سکی جو کامیابی سے ہمکنار ہوتی،اس تمام عرصہ میں حکومت ہر اس قانون سازی میں کامیاب رہی جو وہ کرانے کا عزم کر چکی تھی،ن لیگ نے کبھی اس کا بائیکاٹ کر کے ساتھ دیا اور کبھی کچھ ارکان کی ووٹنگ کے روز ایوان سے دانستہ غیر حاضری کی شکل میں حکومت کو کامیابی سمیٹنے کا موقع ملا ،پیپلز پارٹی کو شہباز شریف نے صرف اس وجہ سے اہمیت نہ دی کہ وہ پنجاب میں اکثریت کھو چکی ہے،مگر اب نواز شریف اور مریم کے دبائو میں شہباز شریف با دل نخواستہ ہی سہی زرداری کی تجاویز سے اتفاق کرنے اور بلاول سمیت ان کو اپنے گھر بلانے پر مجبور ہوئے،پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم فیصلوں سے مختلف سیاست اپنانے پر شو کاز نوٹس دینے والوں نے آج اسی پارٹی کی تجاویز کو تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا،مگر اجلاس مشترکہ لانگ ماچ اور دھرنے ،وزیر اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر کوئی حتمی فیصلہ نہ کر سکا،جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دونوں جماعتوں کے دل کا میل دھویا نہیں جا سکا،تاہم یہ اجلاس پیپلز پارٹی کی اخلاقی فتح ہے۔
یہ بات اب بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ حکومت کو سیاسی حوالے سے کوئی خطرہ نہیں اور اگر کچھ نا گہانی نہ ہوئی تو حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی،اپوزیشن اب بھی یکسوئی اور ہم آہنگی سے محروم ہے،اگر چہ یہ خوبی حکومت اور سرکاری پارٹی میں بھی دکھائی نہیں دیتی،ریاست کے اہم ادارے حکومت جو وزیر اعلیٰ اور کابینہ پر مشتمل ہوتی ہے اور انتظامی محکمے ان کے فیصلوں اور پالیسیوں پر عملدرآمد کراتے ہیں،مگر ریاستی ادارے اور صوبائی انتظامیہ میں عدم اعتماد کی فضا دن بدن مکدر ہوتی جا رہی ہے،اس ماحول میں اچھی یا بری تو کیا حکومت نام کی کوئی چیز کہیں دکھائی ہی نہیں دے رہی،اگر اپوزیشن یکسو ہوتی تو اس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتی تھی مگر دونوں بڑی پارٹیوں کی قیادت اپنے لئے ڈیل اور ڈھیل کیلئے کوشاں ہیں سب کو اپنی فکر لاحق ہے کسی کو عوام اور ان کے مسائل اور مشکلات کی فکر نہیں،اس لئے آج بھی عوام کو سیاسی اختلافات کے نام پر بیوقوف بنایا جا رہا ہے اور عوام بن رہے ہیں،اور یہ سلسلہ تھمنے کے کوئی آثار بھی نہیں۔