جامعہ پنجاب میں اساتذہ کیساتھ ہونے والی علمی نشست میں چیئر مین ہائیر ایجوکیشن کمیشن (HEC) ڈاکٹر طارق بنوری نے پاکستان میں ہونے والی ناقص تحقیق اور اعلیٰ ڈگریوں کی اندھا دھند تقسیم پر طویل گفتگو کی۔ یہ کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں ہے۔ شعبہ تعلیم سے وابستہ افرادبرسوںسے ان معاملات پر نوحہ کناں ہیں ۔ ماہرین تعلیم اکثر نشاندہی کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے ہاں نہایت ناقص تحقیقی مضامین (research articles) لکھے (اور بسا اوقات لکھوائے) جاتے ہیں۔ یہ مضامین ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے منظور شدہ جرائد(journals) میں دھڑلے سے چھپتے ہیں۔ یہ قصے بھی زبان زد عام ہیں کہ کئی مجلوں کے ایڈیٹرصاحبان مضامین کی اشاعت کے لئے یہ شرط عائد کرتے ہیں کہ ان کا نام بھی بطور مصنف مضمون میں شامل کیا جائے۔ کمیشن نے جامعات کے اساتذہ کی ترقی کو دس ،پندرہ تحقیقی آرٹیکلز کی اشاعت سے نتھی کر رکھا ہے۔لہٰذا تحقیقی مضامین کی اشاعت اساتذہ کے لئے زندگی موت کا سا معاملہ ہے۔ کئی مصنفین کو بہ امر مجبوری ایڈیٹر صاحبان کی فرمائش پر سر جھکانا پڑتا ہے۔ یہ قصے بھی عام ہیں کہ فلاں فلاں سرکاری جامعہ کا، فلاں فلاںاعلیٰ عہدیدار، فلاں فلاں بااثر اساتذہ کو اگلے گریڈ میں ترقی کے لئے اہل کروانے کے لئے دنوں اور ہفتوں میں ان اساتذہ کے کئی کئی مضامین جامعہ میں چھپنے والے جرنلز میں شائع کرواتا ہے۔ بسا اوقات جرنل کا سپیشل ایشو بھی شائع کیاجاتا ہے۔ مضامین چھپوانے کے لئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے وضع کردہ ضوابط اور ریویوپراسس کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔ اس طرح کئی ایماندار اور قابل اساتذہ ترقی کی دوڑ میں ، ان بااثر افراد سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔
بیسیوں اساتذہ بتاتے ہیں کہ وہ اس حق تلفی اور علمی بد عنوانی کے خلاف ایچ۔ ای۔ سی میں شکایت کر چکے ہیں۔ لیکن کمیشن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اب یہ قصہ پارلیمنٹ تک جا پہنچا ہے۔سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم اورپیشہ وارانہ تربیت میں باقاعدہ بحث کے بعد ایک ضمنی کمیٹی قائم ہو چکی ہے۔ سابق آئی۔جی پولیس سینیٹر رانا مقبول اس کمیٹی کے سربراہ ہیں۔رانا صاحب تفتیش کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ ضمنی کمیٹی نے پاکستان کی پانچ نامور سرکاری جامعات کے جرائد میں چھپنے والے تحقیقی مضامین کا آڈٹ شروع کر رکھا ہے۔ کمیٹی کی رپورٹ جلد قائمہ کمیٹی کے چیئرمین کو پیش کی جائے گی۔ دیکھتے ہیں کہ اس تفتیشی رپورٹ میں کیا انکشافات سامنے آتے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ معاملہ سینٹ تک نہ پہنچتا ۔ یہ ہائیر ایجویشن کمیشن کے کرنے کا کام ہے۔ تاہم کمیشن کی بے نیازی کی وجہ سے یہ معاملہ ایوا ن بالا تک جا پہنچا ہے۔ ناقص تحقیقی مضامین لکھنے اور چھپنے کے قصے دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ چند ماہ پہلے انٹر نیشنل ویب سائٹ ری ٹریکشن واچ ڈیٹا بیس نے پاکستانی پروفیسروں کے سرقے اور علمی بد عنوانیوں کا شاہکار بیسیوں تحقیقی مضامین کی نشاندہی کی ۔ زوالوجی کے ایک پروفیسر صاحب کے سات پرچے پکڑے گئے ۔ کل ہی ٹائمز ہائیر ایجوکیشن نے پاکستانی پروفیسروں کی علمی بدعنوانی (academic corruption) پر ایک مضمون شائع کیا ہے۔ یہ مضمون پڑھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ دنیا بھر میں نامور پروفیسر ز سال میں ایک دو تحقیقی مضامین لکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسے پروفیسر بھی ہیں جو چند ماہ میں درجن بھر مضامین لکھتے اور چھپواتے ہیں۔کچھ پروفیسرز نہایت فخر سے بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے تیس پینتیس سالہ کیرئیر میں ایک ہزار مضامین لکھے اور شائع کروائے۔ یعنی ہر دس بارہ دن میں ایک مضمون۔ جعلسازی کے ایسے قصے بھی سامنے آتے ہیں کہ کچھ جرنلز کے ارباب اختیار نے کمیشن کا وضع کردہ peer review پراسس بھگتانے کیلئے غیر ملکی پروفیسروں کے نام سے جعلی ای۔میل اکاؤنٹ بنا رکھے ہیں۔
ڈاکٹر طارق بنوری پاکستان میں ہونے والی ان تمام جعلسازیوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔جامعہ پنجاب میں بھی انہوں نے تحقیق کے نام پر ہونے والی بے ایمانیوں کی نشاندہی کی۔ سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ان تمام خرابیوں کی روک تھام کیلئے کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔ اگرچہ ان کے عہد میں کمیشن نے کچھ مجلوں کو بند کیا۔ کچھ کا درجہ کم کیا۔ تاہم یہ اقدامات اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہیں۔ تحقیقی مضامین کے حوالے سے ہونے والی ہیرا پھیری دھڑلے سے جاری ہے۔خود کمیشن نے کئی ناقص پرچوں کی منظوری دے رکھی ہے۔
پی۔ایچ۔ڈی کا بھی یہی حال ہے۔ ڈاکٹر بنوری کا کہنا ہے کہ ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں کی بندر بانٹ نے ہماری ڈگری کو دنیا بھر میں رسوا کیا ہے۔مجھے یاد ہے چند برس پہلے پنجاب پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین نے بھی گورنر پنجاب کو ایک خط ارسال کیا تھا کہ ایم ۔فل اور پی۔ایچ۔ڈی ڈگریوں کے انتہائی ناقص معیار تعلیم کی اصلاح کی جائے۔ خط میں لکھا تھا کہ اعلیٰ ڈگریوں کے حامل امیدوار وں کی ذہنی استعداد کا عالم یہ ہے کہ وہ انٹرویو میں اپنے تحقیقی مقالے کا عنوان تک بتانے سے قاصر ہوتے ہیں۔ اس افسوسناک انکشاف کے بعد بھی ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے سرکاری اور نجی جامعات میں ڈگریوں کی اندھا دھند تقسیم پر کوئی روک نہیں لگائی۔ حقیقت یہ ہے کہ یونیورسٹیوںکے بیشتر پروفیسر صاحبان زیادہ سے زیادہ تھیسز سپروائز کرنے کے مشن پر گامزن ہوتے ہیں۔ایسے میں معیار کی پروا کون کرے؟ انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ایک پروفیسر صاحب کا قصہ کچھ عر صہ پہلے خبروں کی زینت بنا۔ ان صاحب نے پانچ برس پہلے ایک مقامی یونیورسٹی سے پی۔ایچ۔ ڈی کی تھی۔ ٹھیک پانچ سال بعد انہوں نے مختلف مضامین (بشمول سائیکالوجی اور فنانس) میں پانچ پی۔ایچ۔ڈیز مکمل کروا کر ریکارڈ قائم کیا۔ یہ اور ایسے کئی قصے نہایت عام ہو چلے ہیں۔ہائیر ایجوکیشن کمیشن ہو یا کوئی بھی ریگولیٹری باڈی۔ ان اداروں کے ہاتھ میں قانون کا ڈنڈا ہوتا ہے۔ خرابیوں کی اصلاح کے لئے یہ ڈنڈا حرکت میں آنا چاہیے۔ تحقیق کے میدان میں ہونے والی بد عنوانیوں کے خلاف وعظ و نصیحت کے بجائے چیئرمین صاحب کو سخت ایکشن لینا چاہیے ۔ جعلسازی میں ملوث افراد کی گرفت کرنی چاہیے۔
اپنے خطاب میںچیئر مین صاحب نے بجا طور پر فرمایا کہ ہمارے نظام تعلیم میں تدریس / ٹیچنگ کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اگلے گریڈ میں ترقی پانے، یہاں تک کہ بیسٹ ٹیچر ایوارڈ کی تقسیم میں بھی تدریس کا تذکرہ کم کم ملتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن جیسے با اختیار ادارے (جو بھاری بھرکم بجٹ اور انفراسٹرکچر کا حامل ہے) کے لئے کلاس روم پرفارمنس اور تدریس کی حوصلہ افزائی کرنا کونسا مشکل کام ہے؟ بیسٹ ٹیچر ایوارڈ کے لئے کوئی نیا پروفارما بنانے اور پیمانہ وضع کرنے میں بھی کیا رکاوٹ حائل ہے؟
ڈاکٹر بنوری کا کہنا تھا کہ عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے کمیشن میں موجود پالیسیوں کا جائزہ لیا۔ بہت سی پالیسیوں کو تبدیل کیا۔ انہوں نے کمیشن میں چند ایک انتظامی عہدوں کے علاوہ دیگر تمام عہدوں پر بھرتی کیلئے ایم۔فل اور پی۔ایچ۔ڈی کی شرط ختم کر دی ہے۔ تضاد یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے عہد میں جامعات کی وزیٹنگ فیکلٹی کا حصہ بننے کے لئے ایم۔فل ڈگری کی کڑی شرط عائد کر دی گئی ہے۔ اس پیمانے پر بیشتر نامور صحافی، کالم نگار، ڈرامہ رائٹر، ڈائریکٹرز ، جامعات کے شعبہ ابلاغیات میں پڑھانے کے لئے نا اہل ہیں۔ یہی حال دیگر شعبوں کا ہے۔ مثلا کمیشن کے پیمانے کے مطابق معروف عالم دین مولانا تقی عثمانی کسی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کی وزیٹنگ فیکلٹی میں پڑھانے کے اہل نہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی قابلیت سے انکار نہیں۔ تاہم ماہرین تعلیم کو شکایت ہے کہ ڈاکٹر بنوری پالیسی سازی کے عمل میں اسٹیک ہولڈروںکو شامل کرنے سے گریزاںرہتے ہیں۔ گزشتہ کالم میں مجھے بیسیوں پروفیسر صاحبان کا فیڈبیک موصول ہوا۔ ان میں تین سابق اور حاضر سروس وائس چانسلر بھی شامل ہیں۔ ان تینوں نے ڈاکٹر صاحب کی وضع کردہ (اور تنازعات میں گھری) انڈر گریجوایٹ اور پی۔ایچ۔ڈی پالیسیوں کو بھی عدم مشاورت کا شاخسانہ قرار دیا ۔
میری دعا ہے کہ عدالت تفصیلی فیصلے میں ڈاکٹر صاحب کی معطلی کا عرصہ بھی انہیں واپس لوٹانے کا حکم جاری کرے۔ تاکہ ڈاکٹر صاحب بطور چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن ان خرابیوں کو دور کرنے کے لئے عملی اقدامات کر سکیں ، جن کے بارے میں وہ بخوبی آگاہ ہیں۔