اکتوبر 2021 میں شروع ہونے والا دبئی ایکسپو اپنی پوری آب و تاب اور رعنائیوں کے ساتھ مارچ 2022 میں اختتام پذیر ہوگا ۔ اس عظیم میلے میں شرکت کر کے احساس ہوا ہے کہ دنیا کہاں سے کہاں نکل گئی ہے۔ دنیا بھر سے 190 ممالک کے سٹال ایک نئی دنیا کی تخلیق کے متلاشیوں کے لئے تسکین کا سبب بن رہے ہیں ۔ دوبئی ایکسپو 2020 کا مشن بھی دنیا کے سب سے اہم مسائل کے لیے نئے تصورات، سوچنے کے طریقے اور حل فراہم کرنا تھا۔آئیڈیا اور سوچ کے اعتبار سے یہ ایک ممتاز حیثیت کی حامل ایکسپو ہے۔ اس نمائش کو بروئے کار لانے کے لئے لگ بھگ 2 لاکھ ماہرین اور ہنر مندوں نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اس کا متاثر کن تعمیراتی پویلین، اعلیٰ تکنیک دیکھنے والوں کو مسحور کر رہی ہے۔ مارچ میں دوبئی کی سب سے بڑی تقریب منعقد ہونے جارہی ہے۔ اب اس ایکسپو کے منتظمین اور شرکاء کے پیش نظر سب سے بڑا چیلنج اس ایکسپوکے بعد اس دنیا کو ان تصورات پر عمل پیرا دیکھنا ہے۔ دوبئی کے حکمرانوں نے کرونا کی وبا پھوٹنے کے بعد اس خوفزدہ دنیا کو جینے کا ایک نیا حوصلہ دیاہے۔ دنیا بھر سے لاکھوں سیاح، کاروباری افراد اور مختلف شعبوں کے ماہرین یہاں آئے ہیں۔ دنیا کرونا کے دوران جن تلخ تجربات سے گزری ہے۔ روایتی سوچ اور کاروبار جس بری طرح سے غیر فعال ہوئے ہیں ۔ اس ایکسپو کا بنیادی مقصد ہی دنیا کو بدلنا اور فعال کرنا ہے۔ یوں کہیں کہ یہ سوالات واقعات، تجربات اور سوچ کی قیادت کے ساتھ ساتھ عوامی گفتگو کا ایک مجموعہ ہے جس کا مقصد دنیا کو درپیش خطرات کے تخلیقی حل کو فروغ دینا ہے۔ یہاں آکر معلوم ہوا کہ دنیا کے مسائل ہم سے بہت مختلف ہیں۔ عالمی اہمیت کے اہم مسائل مثلاً آب و ہوا میں تبدیلی، انسانی رہائش گاہوں کو زیادہ پائیدار بنانے، ڈیجیٹل تقسیم ختم کرنے، تعلیم کے مساوی حق کو یقینی بنانا اور صحت کی دیکھ بھال سے لے کر خلا کی تسخیر شامل ہیں۔ اس ایکسپو کو کامیاب بنانے کے لئے متحدہ عرب امارات نے سیاحوں کے لئے پر کشش سہولیا ت دے رکھی ہیں۔ لاکھوںسیاحوں کی موجودگی نے اس شہر کے ڈسپلن کو ذرہ برابر بھی متاثر نہیں کیا۔ رہائش ، کھانے ، ٹریفک اور ائر پورٹس پر موجود سہولیات نہایت متاثر کن تھیں۔ کہیں بھی کوئی دقت محسوس نہیں ہوئی۔ جہاں دنیا بھر کے ممالک اپنے اپنے آئیڈیا ز کے ساتھ موجود ہیں وہاں پاکستان کے سٹال کا عنوان ہے' چھپا ہو ا خزانہ '۔ دنیا کو اس خزانے کے تلاش کی دعوت عام دی گئی ہے۔ میں سوچ رہا تھاپچھلے 74 برس میں کیا ہم خود اس خزانے کی حقیقت کو پہچان سکے ہیں۔ کیا اس کی حفاظت کیلئے کوئی میکنزم بنایا ہے۔ ارض وطن کا سب سے بڑا سرمایہ عوام ہیں۔ کیا ہم نے ان انسانوں کی بنیادی ضروریات ، ان کے ذہنی ارتقا، صاف آب و ہوا اور تفکرات سے آزاد نظام تشکیل دینے کی سعی کی ہے ؟ آج بھی ہر سیاسی جماعت اقتدار کے حصول کے لئے ایک دوسرے سے دست وگریباں ہے۔ ہر جانب سے چور ، لٹیرے اور سلیکٹڈ کی صدا بلند ہورہی ہے۔ سیاست میں اداروں کا غیر معین کردار ، زبوں حال معیشت اورانصاف کو ترستے عوام کیسے دنیا کی توجہ کا مرکز بن سکتے ہیں۔ ایک امید تھی کہ سی پیک کے ذریعے اس ملک میں ترقی و خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ صنعتی انقلاب کے ذریعے لاکھوں نوجوان قومی معاشی دھارے میں اپنی قوت بازو سے اس ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔ لیکن منصوبہ بندی کے فقدان ، سیاسی عدم اعتماد کی فضا اور معاملات کو ذاتی مفاد کی عینک سے دیکھنے کے عمل نے خوشیوں پر غم کے سائے مسلط کر دیئے ہیں۔ ایک جانب دوبئی نے عظیم نمائش کے ذریعے دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ تو دوسری جانب چین سرمائی اولمپکس کی شاندا ر میزبانی کے ساتھ دنیا کے ساتھ سفارتی اور معاشی تعلقات کو ایک نئی جہت دے رہا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم عمران خان بھی اس اہم موقع پر چین گئے ہیں۔ چینی صدر شی جن پنگ اور ان کی ٹیم دنیا کے لئے ایک نئے میکنزم اور تعلقات کی سمت متعین کر رہے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت جو کہ پچھلے ساڑھے تین برس سے مرکز اور تین صوبوں میں بر سر اقتدار ہے۔ اس دور میں جہاں سی پیک پر چینی انوسٹمنٹ میں کمی آئی ہے وہاں دیگر ممالک بھی پاکستان میں سرمایہ کاری سے گریزاں ہیں۔ ڈالر کی اڑان اور مہنگائی کے طوفان نے عوام کو بے جان کر دیا ہے۔ دورہ چین سے واپسی پر قوم کو خوشخبری سنانے کے بجائے وزیر اطلاعات فواد چودھری کا میڈیا سے بات چیت کے دوران اپوزیشن کو طعنے دینا اور پھبتیاں کسنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وزیر اعظم اس دورے سے کچھ خاص کامیابی نہیں حاصل کر سکے۔ یاد رکھیں یہ دنیا ہمیں تب پہچانے گی جب ہم خود کچھ کرنے کے قابل ہوں گے۔ ہمارا ہوم ورک مکمل ہو گا۔ ہمیں اس دھرتی پر چھپے خزانے خود تلاش کرنا ہیں۔ بِنا تیاری کے دنیا کو خزانے کی تلاش کی دعوت دینا اپنے خزانے لٹیروں کے حوالے کرنے کے مترادف ہے۔