کچھ تو خیال کریں!

Meera Sulehri, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

ہم نے دیکھا ہے کہ دنیا میں ذرائع نقل وحمل کو معاشی و معاشرتی طور پر بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ترقی یافتہ ممالک جدید ذرائع آمدورفت سے نہ صرف تیز رفتار ترقی کی منازل طے کرتے ہیں بلکہ ان ذرائع کے استعمال سے وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ عوام کا معیار زندگی بلند ہوتا ہے۔ آج کل لاہور میں بڑھتی ہوئی ٹریفک ہر فرد کے لیے درد سر بن چکی ہے اور بڑھتی ہوئی ٹریفک کے ساتھ ساتھ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔ ان سارے حالات کو دیکھ کر میں کہوں گی کہ ایک غریب آدمی سے پوچھیں ان معاملات کا تو وہ حکومت کی شان میں چار لفظ بیان کرے گا اور پھر بتائیگا کہ عمران خان صاحب نے عوام کو سبز باغ دکھائے تھے اور عوام کے ساتھ کِیا کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم نے عوام کے ساتھ کیے گئے سب وعدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ ماضی کے ادوار پر نظر ڈالیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہماضی کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف آنے والے حالات سے کافی حد تک واقف تھے، اس لیے وہ چاہتے تھے کہ میں اپنے دور حکومت میں ہی عوام کے لیے کچھ سہولیات مہیا کر دوں تاکہ جانے کے بعد عوام یاد رکھے۔ شاید وہ یہ بھی جانتے تھے کہ آنے والا حکمران عوام کو ایسی سہولیات فراہم نہ کر سکے جو وہ عوام کو دے گئے ہیں، میٹرو بس اور اورنج ٹرین کی شکل میں۔
مجھے آج بھی یاد ہے شہباز شریف کے چند الفاظ کہ عوام مجھے یاد کریں گے۔ شاید یہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، جب مجھے اتفاق ہوا عوام سے ملاقات کا، جب میں اپنے پروگرام کے لیے عوام کے بیچ میں گئی۔ عوام کہتے ہیں میٹرو بس کا کرایہ نون لیگ کے دور میں کیا تھا اور آج کے دور میں جیسے حکومت نے ہمارے منہ سے روٹی کے لقمے چھین لیے ہیں، ویسے ہی لگتا ہے حکومت چاہتی ہے کہ ہم سفر بھی پیدل کریں۔ اگر میٹرو بس پروجیکٹ پر نظر ڈالیں تو ماضی کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے 26.65 ارب کا یہ پراجیکٹ تحفہ عوام کو اپنے دور حکومت میں دینے کے بعد اس کی خوب رکھوالی بھی کی۔ اس وقت عوام میٹروبس کا 27 کلومیٹر کا سفر بآسانی عزت کے ساتھ گرمی میں اے سی میں بیس روپے طے کرتے تھے۔ نہ صرف ایک غریب آدمی بلکہ بہت سے نوکری پیشہ حضرات بھی اپنا وقت بچانے کے لیے میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے سفر مستفید ہوتے ہیں۔
میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے آنے سے اہل لاہور کا شمار بھی دنیا کے ان چند شہروں میں ہوا جو میٹرو بس کی صورت میں آمد و رفت کے جدید ترین ذرائع سے مستفید ہو رہے ہیں۔ میٹرو بس اور ٹرین اس وقت مغرب اور یورپ سمیت دنیا کے 41 ترقی یافتہ شہروں میں لوگوں کو آمدورفت کی باکفایت اور آرام دہ سفر کی سہولیات فراہم کر رہی ہیں۔
بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ٹریفک کے مسائل کے حل کے لیے مختلف ادوار میں متعدد تجاویز زیرغور رہیں تاہم حقیقی بنیادوں پر کوئی قابل عمل پیش رفت نہ ہو سکی تھی۔ ماضی کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اپنے دور حکومت میں تمام شعبہ ہائے زندگی اور عوامی فلاح و بہبود کے لئے ایسے منصوبے شروع کیے جو معیار، شفافیت اور میرٹ کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہیں۔ بین الاقوامی ادارے اور شخصیات بھی ان منصوبوں کی شفافیت اور افادیت کی بارہا تعریف کر چکے ہیں۔ اسی طرح میٹرو بس اور اورنج ٹرین منصوبے کی تکمیل کے بعد پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہونے لگا ہے جو ماس ٹرانزٹ جیسے جدید ذرائع آمد و رفت سے استفادہ کر رہے ہیں اور اس کا کریڈٹ شہباز شریف کو جاتا ہے۔ موجودہ وزیر اعلیٰ کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ شہباز شریف بالکل درست سمت میں اپنا صوبہ لے کر چلے تھے۔ انہوں نے ایسے منصوبے بنا کر تنقید کا جواب تعمیر سے دیا تھا بلکہ ناقدین کی تنقید کے باوجود سنجیدہ کاوش اور برادر ملک کے تعاون سے میٹرو بس منصوبے کو محض گیارہ ماہ کی قلیل مدت میں کامیابی سے مکمل کر کے ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا۔
مگر اب کچھ بات کریں موجودہ حکومت کے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی جب میں نے لاہور کی سڑکوں کا پروگرام کے لیے دوبارہ رخ کیا تو میرا عثمان بزدار کو موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب کہنے کو دل تک نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب آپ 
ماضی کے دور سے موجودہ دور کا میٹروبس کی حالت کا موازنہ کریں تو عثمان بزدار کی نااہلی سامنے آتی ہے۔ میں کہتی ہوں اگر ایک شخص منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیتا ہے تو آنے والے شخص کا کام بنتا ہے کہ اس منصوبے پر مزید محنت کرے اور اس کی دیکھ بھال کا خیال رکھے نہ کہ آپ آتے ہی اس تحقیق میں پڑ جائیں کہ اس منصوبے میں کرپشن ہوئی ہے۔ ٹھیک ہے آپ اگر کہتے ہیں کہ اس منصوبے میں کرپشن ہوئی ہے تو جناب آپ بھی تو دیکھیں گے آپ کیا کر رہے ہیں۔ ان سب حالات کو دیکھتے ہوئے موجودہ وزیر اعلیٰ کا موازنہ ماضی کے وزیراعلیٰ شہباز شریف سے کرنا نالائقی ہے۔ شہباز شریف نے عوام کو مستفید کیا میٹرو بس اور اورنج ٹرین جیسے منصوبے بنا کر، سڑکوں کے حالات بہتر کر کے، کوڑے کا نظام بہتر رکھا۔ آپ لوگوں نے اقتدار میں آنے کے بعد کیا کیا صحیح سمت میں بہتی ہوئی گنگا کو الٹا دیا۔ پھر آپ لوگ کہتے ہیں کہ بیوروکریسی ہمیں کام نہیں کرنے دیتی اس لحاظ سے دیکھا جائے تو شہباز شریف ایک ایڈمنسٹریٹر بھی بہت اچھے رہے، جنہوں نے بیوروکریسی سے کام تو لیا نہ کہ آپ کی طرح ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھ گئے۔
میٹرو بس کے کرایوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا گیا یہ کہہ کر کہ اخراجات پورے نہیں ہو رہے۔ ماضی کے وزیراعلیٰ بھی تو اخراجات پورے کرتے رہے ہیں، اورنج ٹرین کے حالات بھی میٹرو بس سے ملتے جلتے ہیں۔ اورنج ٹرین بھی شہباز شریف کی جانب سے عوام کو دیا گیا تحفہ ہے مگر میں سمجھتی ہوں کہ موجودہ حکومت کا فرض بنتا تھا اس منصوبے کا بھی خیال رکھا جائے نہ کہ میٹرو بس اور اورنج ٹرین کو الزامات کی بھینٹ چڑھا دیا جائے۔ جو حال پشاور میں میٹرو بس کا کیا وہی لاہور میں کر دیا گیا، ان منصوبوں کے کتنے برے حالات کر دیے۔ کبھی میٹرو بس اور اورنج ٹرین میں حکومتی نمائندوں کا سفر کرنے کا اتفاق ہو تو آئیں اور عوام سے پوچھیں تو عوام آپ کو کہیں گے کہ کچھ تو خیال کرو حکومت کا آخری سال آ گیا ہے یا ہم آخری سال میں بھی ’’ناں‘‘ ہی سمجھیں؟
کرسی ہے تمہارا جنازہ تو نہیں
کچھ کر نہیں سکتے تو اُتر کیوں نہیں جاتے
ان حالات کو دیکھتے ہوئے میں شہباز شریف اور ان کی کابینہ کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں جنہوں نے عوام کو کچھ تو دیا۔ شاید اس بات کا اندازہ عوام پہلے نہ لگا سکے مگر اب ہر ایک کو بہت اچھے سے سمجھ آ گئی ہے۔

مصنف کے بارے میں