جنگلی بکرے کی نایاب نسل گلگت بلتستان، ضلع چترال، وادی کالاش اور وادی ہنزہ سمیت دیگر شمالی علاقوں کے علاوہ وادی نیلم کے بالائی علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ قدرت اور قدرتی وسائل کی حفاظت کی عالمی تنظیم بین الاقوامی اتحاد برائے تحفظ قدرت کے مطابق مارخور کا شمار ان جانوروں میں ہوتا ہے ، جن کا وجود خطرے میں ہے اوربالغ مارخور کی تعداد دو ہزار پانچ سو سے بھی کم ہے۔
چار فٹ طویل سینگوں والے گوشت خور جنگلی بکرا کی مرغوب غذا ہیں یک قسم کا جنگلی بکرا جس کے سینگوں کا طول چار فٹ ہوتا ہے اور یہ گلگت اور کوہِ سلیمان میں پایا جاتا ہے، سانپ کھانا اسے مرغوب ہوتا ہے۔ مارخور کا نام تھوڑا عجیب ہے۔ فارسی زبان میں "مار" کے معنی ہیں سانپ اور " خور" سے مراد ہے کھانے والا یعنی " سانپ کھانے والا جانور"۔
ویسے یہ ایک چرندہ ہے اور سانپ نہیں کھا سکتا۔ اس کی وجہ تسمیہ شاید اس کے بَل دار سینگوں کی سانپ سے مشابہت ہو سکتی ہے یا اس جانور کا سانپوں کو مارنا۔ مقامی لوک کہانیوں کے مطابق مارخور سانپ کو مار کر اس کو چبا جاتا ہے اور اس جگالی کے نتیجے میں اس کے منہ سے جھاگ نکلتی ہے جو نیچے گر کر خشک اور سخت ہو جاتی ہے۔ لوگ یہ خشک جھاگ ڈھونڈتے ہیں اور اس کو سانپ کے کاٹنے کے علاج میں استعمال کرتے ہیں۔
جسمانی خدوخال
مارخور کا قد زمین سے کندھوں تک 65 تا 115 سینٹی میٹر، لمبائی 132 تا 186 سینٹی میٹر اور وزن 32 تا 110 کلوگرام تک ہوتا ہے۔ مارخور کا رنگ سیاہی مائل بھورا ہوتا ہے اور ٹانگوں کے نچلے حصے پر سفید و سیاہ بال ہوتے ہیں۔ نر مارخور کی تھوڑی، گردن، سینے اور نچلی ٹانگوں پر مادہ کے مقابلے زیادہ لمبے بال ہوتے ہیں۔
مادہ کا رنگ سرخی مائل ہوتا ہے، جسم اور تھوڑی کے بال چھوٹے ہوتے ہیں جبکہ گردن پر بال نہیں ہوتے۔ نر اور مادہ دونوں کے سینگ بَل دار ہوتے ہیں، جو سر کے قریب بالکل ساتھ ساتھ جبکہ اوپر کی طرف بڑھتے ہوئے الگ ہو جاتے ہیں۔ نر کے سینگ 160 سینٹی میٹر اور مادہ کے سینگ 25 سینٹی میٹر تک ہو سکتے ہیں۔ مارخور کے جسم کی ب±و عام گھریلو بکرے کے مقابلے میں بہت تیز ہوتی ہے۔
عادات و اطوار
مارخور پہاڑی جانور ہے اور 600 سے 3600 میٹر تک کی بلندی پر پایا جا سکتا ہے۔ یہ عام طور پر شاہ بلوط، صنوبر اور دفران کے جھاڑ زدہ جنگلوں میں رہتے ہیں۔ مارخور دن میں چرنے پھرنے والا جانور ہے اور زیادہ تر صبح سویرے یا سہ پہر کے وقت نظر آتا ہے۔ ان کی خوراک موسم کے ساتھ تبدیل ہوتی ہے۔ موسم گرما اور بہار میں یہ گھاس چرتے ہیں جبکہ سردیوں میں درختوں کے پتے کھاتے ہیں۔
جوڑے بنانے کا عمل سردیوں میں ہوتا ہے اور نر ایک دوسرے کے سینگوں میں سینگ پھنسا کے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ مادہ کا حمل 135 سے 170 دن تک ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ایک یا دو (کبھی کبھار تین) میمنے پیدا ہوتے ہیں۔ مارخور ریوڑ کی شکل میں رہتے ہیں جس کی تعداد 9 تک ہوتی ہے۔
ریوڑ میں بالغ مادائیں اور ان کے بچے شامل ہوتے ہیں۔ بالغ نر عموماً اکیلے رہنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی آوازیں بکری سے ملتی جلتی ہوتی ہیں۔ موسم سرما کے اوائل میں نر اور مادہ ایک ساتھ کھلے گھاس کے میدانوں میں پائے جاتے ہیں، جبکہ گرمیوں میں نر جنگلوں میں ہی رہتے ہیں اور مادائیں پتھریلی چٹانوں پہ چڑھ جاتی ہیں۔
اقسام
اب تک مارخور کی تین اقسام عالمی طور پر تسلیم کی جاتی ہیں۔استور مارخور، کشمیری مارخور اور پیر پنجال مارخور سے ملتا جلتا ہوتا ہے اور اس کے سینگ بڑے اور چپٹے ہوتے ہیں جو تقریباً سیدھے ہوتے ہیں۔ افغانستان میں یہ لغمان اور نورستان کے مون سون جنگلات میں پایا جاتا ہے۔ بھارت میں پیر پنجال پہاڑی سلسلے اور جموں و کشمیر کی متنازع سرحد پہ پایا جاتا ہے۔
وادی جہلم کے جنگلات میں بھی اس کے پائے جانے کے شواہد ملے ہیں۔ پاکستان میں چترال، گلگت بلتستان، کوہستان اور ہنزہ کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔بخارائی مارخور : پہلے مارخور کی یہ قسم بالائی آمو دریا اور پیانج دریا کے شمالی کناروں پہ واقع جنگلات میں پائی جاتی تھی جو ترکمانستان سے تاجکستان تک پھیلے ہوئے تھے، تاہم اب ان کی دو یا تین آبادیاں نسبتاً کم رقبے میں موجود ہیں۔ افغانستان میں تاجکستان کی سرحد کے پاس ان کے پائے جانے کے امکانات مووجود ہیں۔
کابلی مارخور کے سینگ بل دار اور مڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ 1978 تک کابلی مارخور صرف افغانستان میں کابل کے سلسلوں، کوہِ صافی اور ان کے درمیان موجود تھے۔ کثیر تعداد میں شکار کی وجہ سے اب یہ صوبہ کابل کے انتہائی دور دراز اور نا رسا علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔
پاکستان میں ان کی آبادی بلوچستان کے دور دراز مقامات، صوبہ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں ڈیرہ غازی خان کے علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ خیبر پختونخوا کے محکمہ جنگلات کے مطابق مردان اور شیخ بدین کے علاقوں میں ان کی آبادی موجود ہے۔ سفید کوہ کے پاکستانی حصے (کرم اور خیبر ایجنسی) میں کم از کم 100کے قریب مارخور موجود ہیں۔
گھریلو بکرے سے تعلق
کچھ مصنفین نے مارخور کو عام گھریلو بکرے کے اجداد کی صف میں شامل کیا ہے۔ چارلس ڈارون کے مطابق موجودہ بکرا مارخور اور پہاڑی بکروں کی آپس میں افزائشِ نسل کے نتیجے میں پیدا ہوا۔
بعض مصنفین نے، سینگوں میں مشابہت کی وجہ سے، مارخور کو چند مصری بکروں کی نسل کا بانی قرار دیا ہے۔ لداخ اور تبت میں موجود "پشمینہ بکری" بھی مارخور کے خاندان میں تصور کی جاتی ہے۔ سسلی میں پائی جانے والی " گِرگنٹانہ بکری" (Girgentana goat ) اور آئرلینڈ کی "بِلبری بکری" کے بارے میں بھی یہی گمان کیا جاتا ہے۔
خطرات
برطانوی راج کے دنوں میں مارخور کو مشکل ترین شکار کا جانور تصور کیا جاتا تھا کیونکہ یہ دشوار گزار راستوں اور پہاڑی سلسلوں میں پائے جاتے تھے۔ اگرچہ افغانستان میں ان کا شکار غیر قانونی ہے لیکن نورستان اور لغمان کے علاقوں میں ان کا شکار روایتی طور پر کیا جاتا رہا ہے اور موجودہ افغان جنگ کے دور میں اس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔
بھارت میں پاکستانی سرحد کے قریب اب بھی ان کا شکار کیا جاتا ہے۔ تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان میں مارخور کا شکار خوراک کے علاوہ ان کے سینگوں کی وجہ سے بھی کیا جاتا ہے جنہیں مختلف دیسی ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ مارخور کو ٹیکساس کے علاقے میں نجی شکار گاہوں میں رکھنے کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا ہے۔
حفاظتی درجہ
قدرت اور قدرتی وسائل کے تحفظ کی عالمی تنظیم بین الاقوامی اتحاد برائے تحفظ قدرت کے مطابق مارخور کو ایسے جانوروں کی صف میں شمار کیا جاتا ہے جن کا وجود خطرے میں ہے۔ یعنی اگر ان کی حفاظت کے لیے مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل قریب میں یہ نسل قرہ ارض سے ہمیشہ کے لیے نایاب ہو سکتی ہے۔ کھلے جنگل میں ان کی کل تعداد دو ہزار سے چار ہزار کے درمیان ہے۔
مارخور کو پاکستان کا قومی جانور ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کے علاوہ مارخور ان 72 جانوروں میں شامل ہے جن کی تصاویر عالمی تنظیم برائے جنگلی حیات (WWF) کے 1976 میں جاری کردہ خصوصی سکہ جات کے مجموعے میں ہیں۔