لاہور: سانحہ ساہیوال پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے متاثرین کو جوڈیشل کمیشن کے بجائے جوڈیشل انکوائری کی پیشکش کردی۔
ذرائع کے مطابق دوران سماعت چیف جسٹس سردار شمیم نے ریمارکس دئیے جوڈیشل کمیشن رپورٹ کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا جبکہ جوڈیشل انکوائری رپورٹ کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔
متاثرین مطمئن ہیں تو جوڈیشل انکوائری کا حکم دے دیتا ہوں جس پر مقتول خلیل کے بھائی جلیل نے آفر غور کرنے کیلئے مہلت طلب کی۔ جسے عدالت نے منظور کرلیا۔
عدالت نے عینی شاہدین کو طلب کر کے بیانات ریکارڈ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا وفاق ایک ہفتے تک جوڈیشل کمیشن سے متعلق آگاہ کرے۔ لاہور ہائی کورٹ میں سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواستوں پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت ہوئی۔
سرکاری وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سانحہ ساہیوال کے تمام ملزمان جسمانی ریمانڈ پر ہیں۔جسٹس صداقت علی خان نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ وقوعہ کی تاریخ بتائیں ؟ یہ سب کچھ ہوا میں لکھتے ہیں لیکن کاغذ میں کچھ نہیں ہوتا۔سرکاری وکیل بیرسٹر احتشام نے موقف اختیار کیا کہ اے ایس آئی محمد عباس کا بیان ریکارڈ پر ہے جب کہ عمیر خلیل ہمارا اہم گواہ ہے، اس کا بیان جمع کروا رہے ہیں۔
وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے پنجاب حکومت سے سانحہ پر رپورٹ مانگ لی ہے جب کہ متاثرہ فریقین نے وزیر اعظم سے جوڈیشل کمیشن بنانے کیلئے استدعا نہیں کی تاہم یہ ضروری نہیں کہ جوڈیشل کمیشن کے لیے متاثرہ فریق ہی درخواست دے۔
چیف جسٹس نے جلیل کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کہیں تو جوڈیشل انکوائری کا حکم دے سکتے ہیں، جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو آپ کیس کا حصہ نہیں بنا سکیں گے تاہم اگر مجسٹریٹ سے جوڈیشل انکوائری کی جائے تو وہ کیس کا حصہ بن سکے گا۔
جلیل کے وکیل نے جوڈیشل انکوائری کروانے کے لیے مہلت دینے کی استدعا کی جسے عدالت نے منظور کر لیا جب کہ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) عینی شاہدین کو فون کر کے بلائے اور گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرے۔