سموگ پاکستان کا ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر ایک بڑامسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ جیسے جیسے دنیا اورانڈسٹری ترقی کرتی جا رہی ہے، فیکٹریوں، کارخانوں، گاڑیوں ودیگر مشینوں سے نکلنے والا دھواں ہوا میں شامل ہوتا جا رہا ہے اور ویسے ویسے ہوا کی کوالٹی بھی متاثر ہونا شروع ہو گئی ہے۔ اب دنیا بھر میں AQI (ایئر کوالٹی انڈکس) چیک کرنے کا رواج بڑھ رہا ہے اور AQI کو چیک کرنے کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کسی ملک کی ہوا کی کوالٹی صحت کے لئے کتنی خطرناک ہے۔ پاکستان میں AQI عالمی ادارہ صحت کے مقرر کردہ کوالٹی کی نسبت 13 گنا سے بھی زیادہ ہے۔ 2021ء کے اعداد و شمار کے مطابق جب 118 ممالک میں AQI کیا گیا یعنی ہوا کے معیار کو جانچا گیا تو پاکستان کی آب و ہوا تیسرے نمبر پر خطرناک ترین قراردی گئی۔ اگر پاکستان کے اپنے شہروں کا اندازہ کیا جائے تو اس وقت فضائی آلودگی کے حوالے سے سب سے خطرناک خیبرپختونخوا کا شہرپشاور، اس کے بعد لاہور،پھر پنجاب کے دوسرے شہر جن میں مریدکے، فیصل آباد اور میانوالی بہ ترتیب تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر پرآتے ہیں جبکہ اسلام آباد اور راولپنڈی کا شمار ساتویں اور آٹھویں آلودہ شہر میں کیا جاتا ہے۔
فضا میں شامل ہونے والے مختلف اجزا جن کا استعمال مشینوں، فیکٹریوں، گاڑیوں اوردیگر انسان کے تیار کردہ آلات سے ہوتا ہے، وہ ہماری فضا میں شامل ہو جاتے ہیں اور اس کوآلودہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شہروں میں فضائی آلودگی دیہاتوں کی نسبت بہت زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس آلودگی سے ہونے والے امراض جن میں سانس اور جلدی امراض زیادہ ہیں، وہ بھی ان شہروں میں زیادہ دیکھے جا رہے ہیں۔ جب یہ چھوٹے چھوٹے ذرات ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں تو پھر ہوا کے تیز چلنے سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے جغرافیائی حالات اس طرح سے ہیں کہ دنیا کے فضائی آلودگی کے حساب سے آلودہ ترین ممالک اس کے اطراف میں ہیں جیسے چائنہ، انڈیا، افغانستان اور ایران نے پاکستان کو گھیرے میں لیا ہوا ہے اور یہ تمام ممالک وہ ہیں جہاں آلودگی بہت زیادہ ہے۔
سموگ میں مختلف سائز کے ذرات ہوتے ہیں۔ کچھ ذرات کا سائز PM 2.5، کچھ کا سائز PM 10 لیکن PM 2.5 کے ذرات چونکہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں اس لئے اس کے صحت پر زیادہ اثرات ہوتے ہیں اور وہ سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں جا کے زیادہ نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔ شہروں کے مختلف ٹاؤنز اور علاقوں میں ایئر کوالٹی کا فرق دیکھنے
میں آتا ہے۔ شہر کے کچھ علاقے ایئر کوالٹی کے حساب سے زیادہ خطرناک ہیں اور کچھ علاقوں میں انڈسٹری کم ہونے، رہائشی علاقے زیادہ ہونے اور درختوں اور باغات کی وجہ سے ایئر کوالٹی انڈکس بہتر ہوتا ہے۔
ہوا کو خراب کرنے والے کچھ عوامل تو سارا سال جاری رہتے ہیں مثلاً گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں۔ لیکن کچھ عوامل مختلف موسموں کے حوالے سے بدلتے رہتے ہیں جیسے سردیوں کے موسم میں لوگ مختلف چیزوں کو جلا کر آگ حاصل کرتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کرونا سے جہاں بہت سارے نقصانات ہوئے وہاں کچھ فائدے بھی ہوئے جیسے لاک ڈاؤن کے بعد گاڑیاں کم چلنا شروع ہو گئیں، فیکٹریاں بند ہو گئیں اس لئے لاہور سمیت ملک کے دیگر شہروں میں ایئر کوالٹی انڈکس بہتر ہونا شروع ہو گیا اور سموگ میں بھی کمی آئی۔ اس سے واضح اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صرف گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں ہمارے ماحول کو کتنی بری طرح متاثر کرتا ہے اور کس طرح سموگ کا مسئلہ پیدا کرتا ہے۔ یہاں کچھ چیزیں توجہ طلب ہیں مثلاً ٹوسٹروک رکشہ جو بے تحاشا دھواں پیدا کرتے ہیں، موٹربائیک اور کمزور انجن والی گاڑیاں، بسیں اور ٹرک، یہ اتنا زیادہ دھواں پیدا کرتے ہیں کہ سموگ بڑھ جاتی ہے۔ اگر کچھ انجن میں ہلکی کوالٹی کا پٹرول ڈلوایا جائے تو اس سے بھی خطرناک اور زیادہ دھواں پیدا ہوتا ہے جس سے AQI بری طرح متاثر ہوتا ہے اور اس میں PM 2.5 کے ذرات کا تناسب بھی بڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح بھٹے کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں بہت بری طرح سے ماحول کو متاثر کرتا ہے اور سموگ کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ یہ بات بنگلہ دیش میں بھی دیکھی گئی جہاں ہزاروں بھٹے ہیں اور اینٹوں کا کاروبار بہت زیادہ تھا اور اس سے دھواں نکل کر ایئر کوالٹی انڈکس بہت بری طرح متاثر کرتا تھا۔ اسی طرح سٹیل بنانے کے عمل کے دوران فرنس آئل کے استعمال سے خطرناک غبارات نکلتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں کسی بھی انڈسٹری سے نکلنے والے دھوئیں کو براہ راست ماحول میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ ان چمنیوں اور ایگزاسٹ کے سامنے کچھ فلٹرز لگا دیئے جاتے ہیں تاکہ ان سے نکلنے والے دھوئیں میں سے خطرناک ذرات فلٹرز ہو جائیں اور نسبتاً صاف دھواں ماحول میں داخل ہو۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ خطرناک دھواں نہ صرف سموگ کا باعث بن رہا ہے بلکہ ہمارے اردگرد موجود جنگلی حیات اور آبی حیات کو بھی تباہ کرنے کا باعث بن رہا ہے جس سے بہت بڑی تعداد میں پودے اور آبی اور دوسرے جنگلی حیات کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے اور ایکوسسٹم بھی تباہ ہو سکتا ہے۔
گرمی میں لوگ گھروں میں آگ جلا کر لکڑی، کوڑے اور مختلف پلاسٹک کی چیزیں جلا کر اس سے آگ سینکنے کے دوران خطرناک قسم کے ذرات اپنے سانس کے ذریعے اندر لے جاتے ہیں۔ عمارتوں کے بنانے کے دوران زمین، پتھر اور ریت کے ذرات اُڑ کر بھی ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں جس سے فضائی ماحول خراب ہو جاتا ہے اور اس سے بھی سموگ میں اضافہ ہوتا ہے۔
گاڑیوں کے چلنے سے کاربن کے چھوٹے چھوٹے ذرات بھی نکل رہے ہوتے ہیں جو ہوا کو خراب کرتے ہیں۔ کبھی آپ نے دیکھا ہو گا کہ یہی چھوٹے چھوٹے ذرات موٹرویز، انڈرپاسز اور سڑکوں کے گرد موجود مختلف چیزوں پر جم جاتے ہیں اور یہی وہ ذرات ہیں جو سانس کے ذریعے انسانی پھیپھڑوں میں جاتے ہیں اور وہاں جا کر پھیپھڑوں کا کینسر، گلے اور معدے کی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ ان کاربن کے ذرات کا ایک ضمنی نقصان یہ بھی ہے کہ الٹراوالٹ ریز کو اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں اور پھر وقفے وقفے سے ان کا اخراج ہوتا رہتا ہے جس سے ماحول کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح ہماری گاڑیوں کے دھوئیں میں NO2 اورSO2 یعنی نائٹرس اور سلفر کے ذرات بھی نکلتے ہیں جبکہ زیادہ ٹریفک والے علاقوں میں نائٹرس کے ذرات کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح سے کچھ ایسے کیمیکل بھی ایسی گاڑیوں سے نکلتے ہیں جو بہت کم درجہ حرارت میں گیس بن کر انسانی پھیپھڑوں میں داخل ہو جاتے ہیں اور سانس کی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔
اگر ہم نے سموگ میں کمی کرنی ہے تو ہمیں ان تمام عوامل کو کنٹرول کرنا ہوگا جو کہ سموگ کا باعث بن رہے ہیں جیسے گاڑیوں کے انجن کو اچھی کنڈیشن میں رکھنا، کمزور انجن گاڑیوں کا استعمال نہ کرنا، اچھی کوالٹی کا ایندھن انجن میں استعمال کرنا، اسی طرح غیرضروری پرائیویٹ گاڑیوں کے بجائے پبلک گاڑیوں کا استعمال کرنا، اسی طرح سے سردیوں کے موسم میں اینٹوں کے بھٹوں کا استعمال بند کر دینا اور جہاں بلڈنگز بنائی جا رہی ہیں ادھر گرد وغبار کو پھیلنے سے روکنے کے لئے کپڑے یا کورز کا استعمال کرنا اور غیرضروری لکڑیاں، کاغذ یا پلاسٹک جلانے سے گریز کرنا۔ ایسا کرنے سے ہماری ماحولیاتی بہتری ہو گی اور AQI انڈکس میں بہتری ہو گی۔ اسی طرح باغات اور درختوں کی تعداد میں اضافہ کرنا بھی ماحولیاتی بہتری کا باعث بنتا ہے۔