اسلام آباد: گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے بیرون ملک جانے سے روکتے ہوئے توہین عدالت کیس میں پیر تک اصل بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیا ہے بصورت دیگر فرد جرم عائد کی جائے گی جبکہ کیس کی سماعت 13 دسمبر بروز پیر تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں سابق چیف جج گلگت بلتستان راناشمیم کے مبینہ بیان حلفی کی خبرپرتوہین عدالت کے کیس کی سماعت ہوئی جس دوران رانا شمیم ذاتی حیثیت میں عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور شوکاز کا جواب داخل کرایا۔ دی نیوزکے ایڈیٹر عامر غوری اور ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصارعباسی بھی عدالت میں پیش ہوئے جبکہ جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی گئی۔
عدالت نے رانا شمیم سے استفسار کیا کہ آپ نے اپنا جواب جمع کرایا ہے؟ جس پر سابق جج نے بتایا کہ میرے وکیل راستے میں ہیں وہ ابھی پہنچنے والے ہیں۔ رانا شمیم نے عدالت کو بتایا کہ میں نے چار دن پہلے جواب دیدیا تھا، وہ جواب عدالت میں لطیف آفریدی صاحب کوجمع کرانا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ججز پریس کانفرنس نہیں کر سکتے، میں دعوے اور اعتماد سے کہہ سکتاہوں اس عدالت کے ججز کو کوئی اپروچ نہیں کر سکتا، میرے کسی جج نے کسی کیلئے دروازہ نہیں کھولا، اگر انہوں نے کہیں پر اوریجنل دستاویز جمع نہیں کرایا تو وہ عدالت میں پیش کریں، اس عدالت پرعوام کا اعتماد ختم کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، کوئی آزاد جج یہ عذر پیش نہیں کرسکتا کہ اس پر کوئی دباو¿ تھا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بیانیے کے ذریعے اس ہائیکورٹ پر دباؤ ڈالا گیا جبکہ اخبار نے خبر شائع کردی کہ جج کوفون کر کے کہاگیا شخصیت کورہا نہیں کرنا، یہ رائے بنائی گئی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے تمام ججزنے سمجھوتا کیا ہوا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الزام چیف جسٹس پاکستان کےخلاف نہیں بلکہ اس ہائیکورٹ کے جج کےخلاف ہے، آپ کیاچاہتے ہیں مجھ سمیت تمام ہائیکورٹ ججزکےخلاف انکوائری شروع ہوجائے؟
رانا شمیم کے وکیل نے دوران سماعت موقف اختیار کیا کہ میرے موکل نے بیان حلفی کے متن سے کوئی انکار نہیں کیا، اس پر اٹارنی جنرل پاکستان نے سوال کیا کہ یہ بتائیں اصل دستاویز خود لارہے ہیں یا پاکستانی سفارتخانے کو دیں گے؟ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ پیرتک اصل بیان حلفی پیش نہ کیاگیا توفردجرم عائدکی جائے گی جبکہ کیس کی مزید سماعت 13 دسمبر تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا ایم شمیم نے اپنے مصدقہ حلف نامے میں کہا ہے کہ وہ اس واقعے کے گواہ تھے جب اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے ہائیکورٹ کے ایک جج کو حکم دیا تھا کہ 2018ءکے عام انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہا نہ کیا جائے۔
گلگت بلتستان کے سینئر ترین جج نے پاکستان کے سینئر ترین جج کے حوالے سے اپنے حلفیہ بیان میں لکھا کہ ”میاں محمد نواز شریف اور مریم نواز شریف عام انتخابات کے انعقاد تک جیل میں رہنا چاہئیں۔ جب دوسری جانب سے یقین دہانی ملی تو وہ (ثاقب نثار) پرسکون ہو گئے اور ایک اور چائے کا کپ طلب کیا۔“