پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد اختر 31 مئی 2018ء کو پنجاب یونیورسٹی کے پہلے مستقل وائس چانسلر تعینات ہوئے۔ ان کا تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان سے ہے۔ انہوں نے 1977ء میں ملتان بورڈ سے میٹرک کا امتحان (فرسٹ ڈویژن کے ساتھ) پاس کیا اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے کیمیکل انجینئرنگ میں بی۔ ایس۔ سی مکمل کرنے کے بعد 1995ء میں یونیورسٹی آف لیڈز سے ماحولیاتی مینجمنٹ میں پی ایچ ڈی کے ساتھ تعلیم مکمل کی۔
پنجاب یونیورسٹی کی تاریخ بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر سر جیمز براڈ ووڈ لیال تھے اور اس وقت اس کا رقبہ 300 ایکڑ پر محیط تھا۔ جامعہ کا آغاز اورینٹل لرننگ کی ڈگریز سے ہوا۔ شروع میں تو اورینٹل لرننگ لیکن بعد میں ہر طرح کی فیکلٹی جامعہ پنجاب کا حصہ بن گئی۔ اب تو یہاں کوئی ایسا مضمون نہیں جو نہ پڑھایا جا تا ہو۔ اس وقت اس کے پانچ کیمپس ہیں جبکہ 19 فیکلٹیز ہیں۔ ڈیپارٹمنٹس، سینٹرز اور انسٹی ٹیوٹس کی تعداد 134 ہو چکی ہے۔
ڈاکٹر نیاز احمد نے واضح کیا کہ یونیورسٹی میں آئندہ ہر کام قانون، میرٹ اور شفافیت کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ کسی استاد کو ذاتی پسند یا ناپسند پر ترقی ملے گی اور نہ عہدے ملیں گے۔ آئندہ ایک پروفیسر ایک ہی عہدے پر کام کرے گا۔ پنجاب یونیورسٹی میں قائم تمام شادی ہالز کو بند کر دیا گیا ہے۔ تعلیمی اداروں کی زمین کو کمرشل بنیادوں پر استعمال کرنا بالکل غلط ہے۔ یونیورسٹی کو بین الاقوامی رینکنگ میں لانے کیلئے ٹھوس بنیادوں پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ اس وقت33فیصد اساتذہ پی ایچ ڈی ہیں۔ آنے والے چار برس میں یہ تعداد 80 فیصد ہو جائے گی۔
تقسیم پاکستان کے بعد پنجاب یونیورسٹی کا ایک نیا سفر شروع ہوا تو حکومت وقت نے اس کو وسعت دینے کا سوچا اور اس کا ایک کیمپس شہر سے باہر بنانے کا فیصلہ کیا گیا اور 1962 میں نہر کنارے جہاں اس وقت نیو کیمپس یا قائد اعظم کیمپس ہے یہاں انسٹی ٹیوٹ آف ایڈمنسٹریٹیو سائنسز کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کے بعد یونیورسٹی کا پھیلاؤ وسیع ہو گیا یہاں تقریباً 1700 ایکڑ پر نیو کیمپس بنایا گیا جہاں بڑے پیمانے پر ہاسٹلز بنائے گئے۔ اب بھی لگ بھگ 30 ہزار طلبہ و طالبات ہاسٹلز میں رہتے ہیں جبکہ ان کیمپس 45000 سے زائد طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ مال روڈ پر موجود پنجاب یونیورسٹی کی عمارت کو اولڈ کیمپس کا نام دیا گیا ہے جبکہ اقبال ٹاؤن اور فیصل ٹاؤن کے درمیان نہر کنارے بنائی گئی نئی عمارت کو نیو کیمپس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دونوں کیمپسز میں آنے جانے کے لیے یونیورسٹی کا اپنا بس سسٹم چلتا ہے۔
تقسیم کے بعد پنجاب یونیورسٹی نے دو نوبل انعام یافتہ سائنس دان پیدا کیے۔ پہلا انعام ڈاکٹر گوبند کھورانا نے میڈیسن کے شعبے میں 1968 میں حاصل کیا جبکہ فزکس کا نوبل انعام ڈاکٹر عبدالسلام کے حصے میں 1979 میں آیا۔
اس یونیورسٹی نے ملک کے ہر شعبے میں گراں قدر خدمات دی ہیں۔ اس ادارے نے کئی وزرائے اعظم اس ملک کو دیے ہیں۔ کئی سائنس دان اور کئی انجینئرز اور لاکھوں کی تعداد میں پروفیشنلز نے اس مادر علمی سے شناخت حاصل کی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد اختر کا کہنا ہے کہ جب سے وہ وائس چانسلر بنے ہیں، انٹرنیشنل رینکنگ میں پنجاب یونیورسٹی کی پوزیشن کو بہتر بنایا گیا ہے۔ سینٹر فار ورلڈ یونیورسٹی رینکنگز کے مطابق پنجاب یونیورسٹی دنیا کی بہترین 801 سے 1000 جامعات کی فہرست میں شامل ہے۔ پنجاب یونیورسٹی اپنے بجٹ کا 70 فیصد اپنے وسائل سے پورا کرتی ہے۔ ہم اب ریسرچ کے شعبے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں تاکہ یونیورسٹی کی عالمی درجہ بندی بہتر ہو۔ اسی لیے ہم نے کئی انسٹی ٹیوٹس کے ذیلی ڈیپارٹمنٹس بڑھا دیے ہیں تاکہ ہر شعبے پر انفرادی توجہ دی جا سکے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ جامعہ پنجاب کا سوشل ڈیویلپمنٹ میں بھی رول بڑھایا جائے اور یہاں کی تحقیقات کو نہ صرف عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہو بلکہ ان تحقیقات کا سماجی سطح پر پاکستان کے سوشل فیبرک میں ہمارا حصہ پہلے سے زیادہ ہو۔
پنجاب یونیورسٹی کے اندر داخل ہوں تو نظم و ضبط صاف نظر آتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کا تاسیسی ماٹو یقین محکم اتحاد اور نظم و ضبط ہے مگر اس پر عمل نہیں کیا جاتا رہا۔ محترم ڈاکٹر نیاز احمد صاحب نے ان اصولوں پر عمل کر کے دکھا دیا ہے۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے طلبا کی اخلاقی تربیت کے لیے ایک مرکز قائم کیا ہے تاکہ مادر علمی سے فارغ ہونے والے طلبا جب سماج میں جائیں تو وہ مثالی کردار کے حامل ہوں اور پاکستان میں اجالا کرنے کا باعث بن سکیں۔
یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ جنوبی پنجاب کی ایک قابل، فعال اور ہر دلعزیز شخصیت کو پنجاب یونیورسٹی کا چانسلر بنایا گیا ہے۔ جنوبی پنجاب کو نوازنے کا یہ سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہنا چاہیے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ڈاکٹر نیاز احمد اختر کے بعد بھی جنوبی پنجاب کے کسی ضلع سے وائس چانسلر کا تقرر کیا جائے۔