پاکستانی معیشت کو اس وقت بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، ہمارے ہاں معیشت کی خراب صورتحال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سرمایہ کاروں نے زیادہ سرمایہ کاری جائیداد کی خریدو فروخت میں کرنا شروع کر دی۔ اس کا تعلق پیدائشِ دولت سے نہیں بلکہ تبادلہ دولت کے عمل سے ہے۔ نئی صنعتیں، نئے کارخانے لگیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پیداواری عمل تیز ہوا، اس میں وسعت آئے۔ کل قومی پیداوار میں اضافے کا مطلب ہوا کہ قومی دولت میں اضافہ ہوا مگر زمین کی خریدو فروخت اور ہاؤسنگ کالونیاں بنانے کا تعلق پیدائشِ دولت کے شعبے سے نہیں۔ زمین خریدی، پیسے مالک کی جیب میں چلے گئے۔ اسے رہائشی کالونی کی شکل دے کر پلاٹ کاٹے گئے اور پلاٹ بیچنے شروع کر دیئے یا مکان تعمیر کر کے بیچنے لگے تو پیسہ آپ کی جیب میں آنا شروع ہو گیا۔ اس طرح پیسہ جیبیں تبدیل کرتا رہتا ہے۔ اس شعبے میں بھاری سرمایہ کاری معیشت کی حرکت پر نہیں بلکہ انجماد پر دلالت کرتی ہے۔ اس وقت جس طرح تعمیراتی شعبے میں دیو ہیکل کمپنیاں وجود میں آ گئی ہیں اور مسلسل پھیلتی جا رہی ہیں یہ معیشت کی صحت نہیں بلکہ مرض کی علامت ہے کہ معیشت غیر متحرک اور پیداواری عمل رکا ہوا ہے یا رجحان سرمایہ کاری کی طرف نہیں۔ غیر منقولہ جائیداد کی خریدو فروخت کے کاروبار میں لگایا جانے پیسہ سرمایہ کاری کے زمرے میں نہیں آتا، رہائشی پلاٹوں کی خرید و فروخت کے لئے لوگوں کی جنونی کیفیت اقتصادی نکتہ نظر سے قطعاً کسی صحت مند رجحان کا پتہ نہیں دیتی۔ درست ہے کہ لوگ پلاٹ خرید کر اس امید پر رکھ چھوڑنا چاہتے ہیں کہ ان کی قیمت کئی گنا بڑھے گی مگر قیمت تو بڑھے گی مگر
پیداوار تو نہیں بڑھے گی۔ اس سے قومی پیداوار پر تو کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ یہ سرمایہ کاری نہیں بلکہ سٹہ ہے جب کہ معیشت کی نشونما کے لئے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، سٹہ مستحکم کاروبار نہیں ہوتا۔ اس سے نہ تو برآمدات بڑھتی ہیں، نہ روزگار میں اضافہ ہوتا ہے اور جو سب سے بڑا ہمارے ہاں اس کا نقصان ہو رہا ہے وہ ہے سٹے کی صورت میں پراپرٹی کی قیمتِ خرید اتنی بڑھ گئی ہے کہ عام آدمی کے لئے گھر بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گیا ہے۔ بڑھتی ہوئی پراپرٹی کی قیمتوں نے اس قابل نہیں چھوڑا کہ وہ کوئی ڈھنگ کا پلاٹ خرید سکے اور پھر اس پر گھر تعمیر کرنے کا سوچ سکے۔ جب کہ سرمایہ کار جہاں بھی کوئی کالونی بننا شروع ہوتی ہے ریٹ بڑھانے کے چکر میں زیادہ سے زیادہ پلاٹ اٹھالیتے ہیں پھر یہی پلاٹ اصل گھر بنانے والوں کو مہنگے داموں میسر آتے ہیں اور یہ سب کچھ مصنوعی عمل ہے جس سے قومی آمدنی میں اضافہ نہیں ہوتا ہے۔ اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ سرمایہ کاروں نے کالونیوں اور پلازوں کے کاروبار میں حقیقی کاروبار کرنے والوں سے بہت فراڈ کئے اور انہیں بے تحاشا مالی نقصان پہنچایا۔ ماضی میں انویسٹمنٹ کمپنیوں کا دور چلا تھا جس میں لاہور، کراچی، ملتان، راولپنڈی، فیصل آباد میں لوگوں کا بہت سا پیسہ ڈوبا تھا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ زیادہ تر اس طرح کی سرمایہ کاری میں غریب طبقہ ہی پریشان ہو رہا ہے انہیں ایک تو پلاٹ اصل قیمت سے بڑھ کر ملتے ہی ہیں لیکن کئی بار یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک پلاٹ کئی بار فروخت ہو جاتا ہے یعنی ایک پلاٹ کی قیمت ایک سے زیادہ بار وصول کر لی جاتی ہے۔ اس طرح بہت سارے لوگ متاثر ہو جاتے ہیں اور کئی لوگوں کی رقمیں ڈوب جاتی ہیں۔ اس قسم کے فراڈ کرنے والوں کو ہمیشہ بااختیار اور با اثر لوگوں کی سرپرستی اور تحفظ حاصل رہا ہے۔ فکر مندی کی یہ بات ہے کہ حکمران طبقے کا بیشتر جوہر قابل بھی اس شعبے سے وابستہ ہو گیا ہے، وہ با اثر ہونے کے ناتے مختلف طریقوں سے عام آدمی کا استحصال کر رہے ہیں۔
کاروباری افراد کو پراپرٹی میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں میں سرمایہ کاری کرنی چاہئے، لیکن آج منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹی صنعتوں کو کوڑیوں کے بھاؤ کباڑ میں بیچا جا رہا ہے، حکومت کو بھی چاہئے کہ بینکوں کو مجبور کرے کہ وہ چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو سرمایہ مہیا کریں، اس کے لئے انفراسٹرکچر بھی مہیا کیا جانا چاہئے۔ پاکستان کی پچھلی 50سالہ تاریخ میں سب سے کم سرمایہ کاری نواز شریف کے پانچ سالہ دور میں ہوئی جس کی وجہ سے ورلڈ بینک نے پاکستان میں کاروبار کرنے کی رینکنگ کو 107 سے 147 تک کم کر دیا۔ ایسے ماحول میں ضروری ہے کہ سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لئے بھر پور اقدامات کئے جانے چاہئیں تاکہ ملک کی نہ صرف برآمدات بڑھ سکیں بلکہ روزگار کے بھی خاطر خواہ مواقع میسر آ سکیں۔ ایسے اقدامات کئے جانے چاہئیں کہ پراپرٹی کی قیمتیں مستحکم رہیں ان میں زیادہ اضافہ نہ ہو اس طرح لوگوں کا رجحان دوسرے کاروباروں کی جانب منتقل ہو گا جس سے معیشت میں بہتری پیدا ہو گی۔ جب لوگوں کو پراپرٹی کی نسبت دوسرے کاروباروں میں زیادہ منافع نظر آئے گا تو وہ خود بھی ایسے کاروباروں میں سرمایہ کای کرنے کو ترجیح دیں گے۔ جس سے ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ حاصل ہو گا، برآمدات بڑھیں گی، اپنے ملک میں اشیاء کی پیداوار سے ملکی درآمدات کم ہوں گی اور ملکی معیشت بہتری جانب گامزن ہو گی۔