دوستو،سپنے دیکھنا غلط نہیں، لیکن سپنے اگر ’’رنگین‘‘ ہونے لگ جائیں تو پھر مسائل بھی ’’سنگین‘‘ ہوسکتے ہیں۔۔ ایک تازہ خبر کے مطابق ضلع لاہور کی 4تحصیلوں میں گزشتہ 3سال میں طلاق کے 24ہزار 157 مقدمات دائرہوئے۔ 11540 مردوں نے طلاق دی،9973خواتین نے خلع لی، 831 کیسز میں مصالحت ہوسکی،یہ انکشاف پنجاب انفارمیشن کمیشن میں عبداللہ ملک ایڈووکیٹ بنام لوکل گورنمنٹ و کمیونٹی ڈویلپمنٹ کیس میں محکمہ کی طرف سے کیا گیا۔پیش کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ11ہزار 540مردوں نے خود اپنی بیویوں کو طلاق دی جبکہ 9ہزار 973 خواتین نے عدالت کے ذریعے خلع لی۔طلاق کے 2ہزار 642 کیسز زیر التواء ہیں جس کی بڑی وجہ فریقین کا یونین کونسل میں مصالحت کے لئے پیش نہ ہونا ہے۔ 24ہزار 157کیسز میں سے صرف 831کیسز میں مصالحت ہوسکی جس کی بڑی وجہ مقامی حکومتوں کے عوامی نمائندگان کا نہ ہونا تھا جن کی موجودگی میں مصالحت کا عمل قدرے آسان اور سہل ہوجاتا ہے۔یونین کونسل کے سرکاری اہلکاروں بشمول سیکرٹری یونین کونسل کو مصالحت میں اتنی دلچسپی نہیں ہوتی۔
آپ کسی بھی دارالافتاء چلے جائیں ،ہفتے کی بنیاد پر سینکڑوں خطوط ہیں جو خواتین نہیں ،مرد حضرات لکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ہماری بیوی کو کسی اور کے ساتھ ’’محبت ’’ہوگئی ہے۔ وہ مجھ سے طلاق مانگ رہی ہے۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے یا بچہ بھی ہے۔ بتائیں کیا کروں؟؟ایک دارالافتا میں ایک خط آیاجس میں شوہر نے لکھا تھا کہ ’’رات آنکھ کھلی تو بیوی بستر پر نہیں تھی، بیڈروم سے باہر آیا تو صوفے پر لیٹی موبائل میں مصروف تھی۔ اب وہ مجھ سے طلاق مانگ رہی ہے اور ہمارا ایک بچہ بھی ہے‘‘۔ نبی مہربانﷺ نے فرمایا ’’اللہ تعالی کو جائز کاموں میں سب سے زیادہ نا پسندیدہ طلاق ہے‘‘۔ ایک عالم دین نے کیا خوب فرمایا تھا ’’یہ قوم اسلام پر مرنے کے لئیے تیار ہے لیکن اسلام پر جینے کے لئیے تیار نہیں ہے‘‘۔آپ قرآن کا مطالعہ کریں سورۃ البقرہ سے لے کر والناس تک چلے جائیں۔ آپ کو نماز، روزہ، حج، زکوۃ میں سے کسی ایک فرض کی تفصیلات نہیں ملیں گی۔ آپ کو یہ تک نظر نہیں آئیگا کہ نماز کا طریقہ کیا
ہے؟ آپ کو ان عبادات کی تسبیحات تک نہیں پتہ چل پائینگی۔لیکن نکاح، طلاق، خلع، شادی، ازدواجی معاملات، میاں بیوی کے تعلقات، گھریلو ناچاقی، کم یا زیادہ اختلاف کی صورت میں کرنے کے کام۔آپ کو سارا کچھ اللہ تعالی کی اس مقدس ترین کتاب میں مل جائے گا۔آپ مان لیں کہ ہمارے معاشرے میں طلاق اور خلع کی سب سے بڑی وجہ عدم برداشت ہے۔حضرت عمرؓنے فرمایا ’’جب دین گھر کے مرد میں آتا ہے تو گویا گھر کی دہلیز تک آتا ہے لیکن اگر گھر کی عورت میں دین آتا ہے تو اس کی سات نسلوں تک دین جاتا ہے‘‘۔قربانی، ایثار، احسان، درگذر، معافی، محبت اور عزت یہ اسلام اور قرآن کی ڈکشنری میں آتے ہیں۔ کمال تو یہ ہے کہ ان جوڑوں کی طلاق زیادہ جلدی ہوجاتی ہے جو ’’جوائنٹ فیملی ’’میں نہیں رہتے ہیں۔خواتین کی نہ ختم ہونے والی خواہشات نے بھی معاشرے کو جہنم میں تبدیل کیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا، ڈرامہ سیریلز،فلموں نے گھر گاؤں اور کچی بستیوں میں رہنے والی لڑکیوں تک کے دل میں ’’شاہ رخ خان‘‘جیسا آئیڈیل پیدا کر دیا ہے۔گھریلو زندگی کی تباہی میں سب سے بڑا عنصر ناشکری بھی ہے۔ کم ہو یا زیادہ، ملے یا نہ ملے یا کبھی کم ملے پھر بھی ہر حال میں اپنے شوہر کی شکر گزار رہیں۔سب سے بڑی تباہی اس واٹس ایپ اور فیس بک سوشل میڈیا نے مچائی ہے۔پہلے لڑکیاں غصے میں ہوتی تھیں یا ناراض ہوتی تھیں تو ان کے پاس اماں ابا اور دیگر لوگوں تک رسائی کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا تھا۔شوہر شام میں گھر آتا، بیوی کا ہاتھ تھام کر محبت کے چار جملے بولتا، کبھی آئسکریم کھلانے لے جاتا اور کبھی ٹہلنے کے بہانے کچھ دیر کا ساتھ مل جاتا اور اس طرح دن بھر کا غصہ اور شکایات رفع ہوجایا کرتی تھیں۔لیکن ابھی ادھر غصہ آیا نہیں اور ادھر واٹس ایپ پر سارے گھر والوں تک پہنچا نہیں۔ یہاں میڈم صاحبہ کا ’’موڈ آف ’’ہوا اور ادھر فیس بک پر اسٹیٹس اپ لوڈ ہو گیا۔ اور اس کے بعد یہ سوشل میڈیا کا جادو وہ وہ گل کھلاتا ہے کہ پورے کا پورا خاندان تباہ و برباد ہوجاتا ہے یا نتیجہ خود کشیوں کی صورت میں نکلتا ہے۔۔مائیں لڑکیوں کو سمجھائیں کہ خدارا! اپنے شوہر کا مقابلہ اپنے باپوں سے نہ کریں۔ ہوسکتا ہے آپکا شوہر آپ کو وہ سب نہ دے سکے جو آپ کو باپ کے گھر میں میسر تھا۔لیکن یاد رکھیں آپ کے والد کی زندگی کے پچاس، ساٹھ سال اس دشت کی سیاحی میں گذر چکے ہیں اور آپ کے شوہر نے ابھی اس دشت میں قدم رکھا ہے۔ آپ کو سب ملے گا اور ان شاء اللہ اپنی ماں سے زیادہ بہتر ملے گا اگر نہ بھی ملے تو بھی شکر گذاری کی عادت ڈالیں سکون اور اطمینان ضرور ملے گا۔۔بیویاں شوہروں کی اور شوہر بیویوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تعریف کرنا اور درگذر کرنا سیکھیں۔ زندگی میں معافی کو عادت بنالیں۔ خدا کے لئیے باہر والوں سے زیادہ اپنے شوہر کے لئیے تیار ہونے اور رہنے کی عادت ڈالیں۔ خدا کو بھی محبت کے اظہار کے لئیے پانچ دفعہ آپ کی توجہ درکار ہے۔ ہم تو پھر انسان ہیں، جتنی دفعہ ممکن ہو محبت کا اظہار کریں کبھی تحفے تحائف دے کر بھی کیا کریں۔ قیامت کے دن میزان میں پہلی چیز جو تولی جائیگی وہ شوہر سے بیوی کا اور بیوی سے شوہر کا سلوک ہوگا۔یاد رکھیں،مرد کی گھر میں وہی حیثیت ہے جو سربراہ حکومت کی ریاست میں ہوتی ہے۔ اگر آپ ریاست کی بہتری کی بجائے ہر وقت سربراہ سے بغاوت پر آمادہ رہیں گی تو ریاست کا قائم رہنا مشکل ہوجائیگا۔ ایک مثالی گھر ایک مثالی خاندان تشکیل دیتا ہے اور ایک مثالی خاندان سے ایک صحتمند معاشرہ وجود میں آتا ہے اور یہی اسلام کی منشاء ہے۔
اب ایک دلچسپ واقعہ سن لیں۔۔کالج اور یونیورسٹی تک دونوں کی محبت پروان چڑھتی رہی مگر پھر اچانک رستے جدا ہوگئے۔۔کافی عرصہ کے بعد کالج ری یونین کی تقریب میں اچانک دونوں ملے۔ بات چیت میں پتا چلا کہ خاتون 4 سال پہلے 65 سال کی عمر میں بیوہ ہوئی تھیں۔ جب کہ موصوف خود بھی 70 سال کی عمر میں 5 سال پہلے ہی رنڈوے ہوئے تھے۔ موقع غنیمت جان کر صاحب نے پوچھا۔۔کیا آپ مجھ سے شادی کر سکتی ہیں؟خاتون نے کچھ لمحے توقّف کے بعد ہاں کر دی۔دو دن گزر گئے تو صاحب کو خیال آیا کہ میں نے تقریب میں شادی کا پوچھا تھا - تو پتہ نہیں خاتون نے ہاں کہا تھا یا ناں؟ کافی دیر تک یاد نہ آنے پر خاتون کو فون کیا اور شرماتے ہوئے پوچھا۔۔ میں نے آپ کو شادی کا پروپوزل دیا تھا مگر اس عمر میں یاداشت چلی گئی ہے اور کچھ یاد نہیں آ رہا کہ آپ نے ہاں کہا تھا یا ناں؟ خاتون نے قہقہہ لگاتے ہوئے خوشی سے کہاہاں ہاں،ہاںکہا تھا۔۔ اور یقین مانیے میں بھی دو دن سے سوچ رہی ہوں مجھے پروپوز کس نے کیا تھا؟
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔بیوی، اور سورج کو گھور کر دیکھنے کے بعد،آنکھوں میں روشنی نہیں رہتی،احتیاط علاج سے بہتر ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔