گزشتہ روز یوم شہدائے پولیس انتہائی عقیدت و احترام سے منایا گیا ۔ شہداء کا یہ حق بنتا ہے انہیں دلوں میں رکھا جائے۔ افواج پاکستان ، پولیس اور بے شمار عام لوگ جو مختلف دھماکوں یا دیگر حادثوں میں شہید ہو گئے، آج پاکستان میں امن و امان ، ان ہی کی قربانیوں کے نتیجے میں ہے…افواج پاکستان اور پولیس سے وابستہ کچھ شخصیات کے منفی رویئے یا کردار پر تنقید بھی ہم کرتے رہتے ہیں ، مگر اس حقیقت سے اعتراف ممکن نہیں اجتماعی طور پر ان اداروں نے پاکستان کے مفادات کا ہمیشہ تحفظ ہی کیا ۔ اگلے روز ہمارے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ پولیس کے ایک شہید کانسٹیبل کے گھر گئے۔ اس موقع پر سوگواری کے واضح اثرات ان کے چہرے پر تھے۔پاکستان صرف اسی صورت میں ترقی کر سکتا ہے جب ہمارے قومی ادارے ایک دوسرے کے وقار اور دکھ سکھ کا ذاتی مفادات سے پرے ہو کر لحاظ کریں۔خصوصاً جو ادارہ زیادہ طاقتورہے یا زیادہ اہمیت اور حیثیت کا حامل ہے اس کا ظرف اس کے قد کاٹھ کے مطابق ہونا چاہئے۔ ماضی میں شہدائے پولیس کی قربانیوں کو صرف انفرادی سطح پر ہی خراج تحسین پیش کیا جاتا تھا۔ شہیدوں کو ان کے مقام کے مطابق اہمیت دینے کا سلسلہ سابق آئی جی پنجاب اور موجودہ آئی جی ریلویز کیپٹن ریٹائرڈ عارف نواز خان نے شروع کیا تھا۔ یوم شہدائے پولیس منانے کی روایت کا باقاعدہ آغاز ان ہی کے بطور آئی جی پنجاب دور میں ہوا۔ ان کے دورمیں لاہور میں تعینات ایس ایس پی ایڈمن رانا ایاز سلیم نے شہدائے پولیس کے لواحقین کے لئے سی سی پی او آفس لاہور میں باقاعدہ ایک شعبہ قائم کیا۔ اس وقت کے سی سی پی او لاہور کیپٹن ریٹائرڈ امین وینس اپنے دفتر میں اپنے کمرے میں جانے سے پہلے روزانہ اس شعبے میں جاتے۔ شہیدوں کے اہل خانہ کی مشکلات بارے عملے سے پوچھتے اور ان کے حل کیلئے فوری اقدامات کرتے۔ اس دور کا سی سی پی آفس بلاشبہ شہدائے پولیس کے لواحقین کی ایک اجتماعی ’’مداواگاہ‘‘ تھی۔ رانا ایاز سلیم کی اس حوالے سے خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ وہ بطور ایس ایس پی ایڈمن لاہور میں اپنا ایک ایسا ’’اکائونٹ‘‘ کھول گئے ہیں جس میں بیسیوں شہیدوں کے لواحقین کی اتنی دعائیں جمع ہیں جتنی شاید ہی اور کسی پولیس افسر کے اکائونٹ میں جمع ہوں گی۔ مال جمع کرنے کے لئے ہر کوئی اکائونٹ کھول لیتا ہے۔ دعائیں جمع کرنے کے لئے اکائونٹ کھولنے کی توفیق کسی کسی کو ہوتی ہے… مجھے دکھ ہے ایسے انسان دوست پولیس افسروں کو موجودہ حکمرانوں نے خود سے پرے کر رکھا ہے۔ ان افسروں کو اس کی کوئی پروا بھی نہیں۔ پروا ہوتی وہ بھی کوئی نہ کوئی سفارش ڈھونڈ کر یا فیلڈ میں اچھی پوسٹنگ حاصل کرنے کے موجودہ طریقہ کار کے مطابق کچھ ’’دے دلا کر‘‘ یا ’’چک چکا کر‘‘ کوئی نہ کوئی اچھی پوسٹنگ حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہو جاتے۔جناب عارف نواز جب آئی جی پنجاب تھے یوم شہدائے پویس پر باقاعدہ تقریبات کا اہتمام پنجاب کے تقریباً ہر ضلع میں ہوتا تھا۔ شہدائے پولیس کے لواحقین کو ان میں مدعو کیا جاتا۔ انہیں سٹیج پر بیٹھا کر عزت دی جاتی۔ اس ضمن میں سب سے بڑی تقریب لاہور میں ہوتی تھی۔ عارف نواز خود بھی اس میں شریک ہوتے۔ کچھ قلم کاروں و دانشوروں کو بھی مدعو کیا جاتا۔ شہدائے پولیس کی قربانیوں پر ان کے منہ سے خوبصورت الفاظ کی صورت میں جو پھول جھڑتے وہ شہیدوں کے لواحقین کے زخموں پر مرہم کا کام کرتے۔ اس بار شہدائے پولیس کی یاد میں کوئی تقریب منعقد ہوئی یا نہیں ؟ مجھے نہیں معلوم ۔ ممکن ہے کووڈ کی وجہ سے نہ ہوئی ہو۔ مگر ایک ایسا چراغ ضرور جلتے رہنا چاہئے جس کی روشنی میں شہدائے پولیس کے لواحقین پل دو پل کے لئے اکٹھے ہو کر اپنے دکھ کو کم کرنے کا اجتماعی چارہ کر لیں… ویسے شہدائے پولیس کی روحوں کو حقیقی معنوں میں راضی کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے دیانتدار و فرض شناس پولیس ملازمین کی جائز ضروریات اور حقوق کا ہر ممکن حد تک خیال رکھا جائے۔ یہ اصل میں پولیس کے وہ ’’غازی‘‘ ہیں جن کا رتبہ کسی طرح سے بھی ’’شہیدوں‘‘ سے کم نہیں۔ آئی جی انعام غنی کچھ اچھے کام بھی کر رہے ہیں۔ ان کے ان اچھے کاموں کی وجہ سے ہم حیران ہیں ان کا ابھی تک تبادلہ کیوں نہیں ہو رہا ؟ حال ہی میں انہوں نے بروقت ایف آئی آر درج کرنے کے لئے اپنے ماتحتوں کو جو سخت پیغام دیا وہ اس حقیقت کے باوجود لائق تحسین ہے کہ ہمارے ہاں بے شمار لوگ جھوٹی ایف آئی آر درج کروانا باقاعدہ ’’عبادت‘‘ سمجھتے ہیں۔ اس ضمن میں وہی نظام متعارف کروانے کی ضرورت ہے جو مرحوم ناصر درانی نے بطور آئی جی کے پی کے یہ متعارف کروایا تھا کہ صاف شفاف تحقیقات کے نتیجے میں جھوٹی ایف آئی آر کروانے والے کا بھی سخت محاسبہ ہو گا۔ ایک اور بات اس موقع پر میں یہ کرناچاہتا ہوں محترم آئی جی پنجاب و دیگر صوبوں کے آئی جی صاحبان حقیقی معنوں میں اگر دیانتدار ہیں تو پولیس ملازمین کو ان کے ’’حلال حقوق‘‘ کی فراہمی میں ہر رکاوٹ فوری طور پر دور کریں۔ خصوصاً پرانی و تاریخی غلیظ روایت کے مطابق تھانوں کی مرمت ، صفائی ، سالانہ رنگ و روغن اور گاڑیوں کے پٹرول و ڈیزل وغیرہ کے جو فنڈز کچھ اعلیٰ افسران کھا پی جاتے ہیں ، اور یہ سب کام بے چارے پولیس ملازمین کو اپنے پلے سے کروانے پڑتے ہیں، یا اس مقصد کے لئے شہریوں کی جیبوں میں ہاتھ مارنے پڑتے ہیں ، اس عمل کو روکیں، اس حوالے سے باقاعدہ پالیسی بنائیں، اس پر عمل بھی کروائیں۔ یہ کارنامہ جو آئی جی بھی کرے گا تاریخ میں اس کا نام سنہرے حروف سے لکھا اور یاد رکھا جائے گا… ہمارے کچھ افسران رشوت کا مال کھانے کو حرام جب کہ فنڈز کھانے کو ’’عین حلال‘‘ بلکہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اس طرح کے ’’فنڈا مینٹل سٹ چوہوں‘‘ نے اپنے شعبوں و اداروں کو بڑی بے رحمی سے کترا ہے… ایک افسر کی وفات نہ ہو گئی ہوتی میں اس کا نام لکھتا جس نے مجھ سے کہا تھا’’فیلڈ میں لگ کر حرام کھا کر بدنام ہونے سے ہزار درجے بہتر ہے کسی ایسی گمنام سیٹ پر تعیناتی کروا لی جائے جہاں فنڈز زیادہ بدنامی کے چانسز کم ہوتے ہیں‘‘… ان حالات میں اللہ جانے وہ فنڈکتنا محفوظ ہے جو شہیدوں کے لئے وقف ہے ؟؟؟