پچھلی دہائیوں کی نسبت آج ہم زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے پاکستان کے ہر شعبے میں بظاہر ترقی نظر آتی ہے۔ شہری سہولتیں، تعلیم، صحت، ذرائع ابلاغ، تعمیرات، ذرائع آمدورفت اور ذرائع آمدنی وغیرہ جس جس پر غور کریں ہم 50، 60، 70، 80 اور 90 کی دہائیوں سے آگے ہیں۔ ہمارے ہاں آنے والی ہر حکومت پہلے سے بڑا بجٹ پیش کرتی ہے۔ اس میں کرپشن کی گنجائش رکھ بھی لی جائے تب بھی ترقیاتی کاموں پر خرچ ہونے والے وسائل پہلے سے زیادہ ہوتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ’’کلینکلی‘‘ (Clinically) ہم ترقی کر رہے ہیں لیکن درج ذیل کچھ سوالات اہم ہیں۔ مثلاً تعلیم عام کرنے کے لئے سرکاری اور نجی سطح پر بہت کام ہو رہا ہے۔ گلی گلی اور شہر شہر سرکاری ونجی تعلیمی ادارے کھل رہے ہیں۔ بین الاقوامی یونیورسٹیوں نے بھی اپنے جدید کیمپس یہاں شروع کردیئے ہیں۔ سب طرف تعلیم کے بارے میں کہا جارہا ہے۔ دوسرے صوبوں سے بڑھ کر پنجاب تعلیم کے فروغ کے لئے کوششیں کررہا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ صوبوں میں خیبرپختونخوا بھی کسی سے کم نہیں ہے۔ سندھ، بلوچستان اور کشمیر کے بڑے شہر بھی تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاگ اٹھے ہیں۔ گویا پچھلی دہائیوں کی نسبت آج پاکستان زیادہ تعلیم یافتہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بیروزگاری پہلے سے زیادہ ہے، پہلے سے کہیں زیادہ مواقع ہونے کے باوجود لوگ بیروزگاری کے ہاتھوں خودکشیاں کررہے ہیں، معمولی آسامیوں کے لئے اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ لوگ درخواستیں دینے پر مجبور ہیں۔ یعنی تعلیم عام ہوگئی مگر اس کے فائدے کم رہ گئے۔ صحت کے حوالے سے شہروں کا ہی جائزہ لیں تو دنیا کی اچھی طبی سہولتیں ہمارے پاس ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے ہاں صحت کی صورتحال یہ ہے کہ غریب لوگوں کا سستا ہسپتال ہویا امیر لوگوں کا مہنگا ہسپتال، کسی میں بھی تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی۔ مختلف سروے رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہم سب کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہیں۔ اگر کچھ نہیں تو شدید ٹینشن اور ڈپریشن کے مریض ضرور ہیں۔ گویا جدید طبی سہولتوں میں پہلے سے بہت زیادہ اضافہ ہوا لیکن مریض بھی پہلے سے بہت زیادہ ہو گئے۔ پچھلی دہائیوں میں اِکا دُکا ٹیلی فون ہوتے تھے۔ پورے کا پورا محلہ یا قصبہ ایک ہی ٹیلی فون پر گزارہ کرتا تھا مگر سب ایک دوسرے کے بہت قریب تھے۔ اب ہر فرد کی جیب میں موبائل فون ہے لیکن ہم ایک دوسرے سے بہت دور ہو گئے ہیں۔ پچھلی دہائیوں میں صرف دو چار گھنٹوں کے لئے سرکاری ٹیلی ویژن کی نشریات ہوتی تھیں، تھوڑے سے اخبارات ہوتے تھے اور ایک ہی ریڈیو تھا۔ اب چوبیس گھنٹے درجنوں ٹی وی چینلز اپنا آپ دکھاتے ہیں۔ ایف ایم ریڈیوز کے شور میں کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔ سیکڑوں اخبارات چھاپے خانوں سے نکل کر ہمارے پاس پہنچ رہے ہیں۔ میڈیا کی کوالٹی، کوانٹٹی اور آزادی پر کسی کو شک نہیں رہا مگر ہم اظہارِ رائے کی آزادی کا اپنا حق منوا لینے کے باوجود دوسرے کو اظہارِ رائے کی آزادی کا حق نہیں دیتے۔ کیا میڈیا کی تعداد میں اضافہ ہی اظہارِ رائے کی ترقی ہے؟ پچھلی دہائیوں میں لوگوں کے پاس اپنی گاڑیاں کم کم ہوتی تھیں۔ اب گھر گھر میں کھڑی گاڑی ہماری ذاتی ترقی کا پتہ دیتی ہے۔ اس کے علاوہ آمدورفت کے سرکاری ذرائع بہت جدید اور بہتر ہو گئے ہیں مگر بہترین ذرائع آمدورفت کے باوجود بھی ہم وقت کی پابندی سے بہت دور ہوگئے ہیں۔ سرکاری دفتروں میں لیٹ آنے والوں کی تعداد پہلے سے بہت بڑھ گئی ہے۔ پچھلی دہائیوں میں شہری سہولتوں کے نام پر گلیوں محلوں کا اینٹوں سے پکا ہو جانا یا نالیاں بن جانا ترقی یافتہ کام محسوس ہوتا تھا۔ اب سیوریج، سڑکوں اور واٹر سپلائی کی بہت ہی اچھی سہولتوں کے باوجود ہمارے گلی محلے اور شہر پہلے سے زیادہ گندے ہوتے جارہے ہیں۔ پچھلی دہائیوں میں آمدنی سیکڑوں میں ہوتی تھی۔ اب آمدنی کئی جگہوں پر ہزاروں کے بجائے لاکھوں میں جاپہنچی ہے۔ پہلے گھر کا ایک فرد کماتا تھا۔ اب کئی جگہوں پر ایک سے زائد افراد آمدنی کا ذریعہ ہیں۔ ہماری جیبوں میں چند روپوں کی جگہ لاکھوں روپے آگئے مگر ضرورتیں پہلے سے بہت کم پوری ہوتی ہیں۔ پچھلی دہائیوں میں زیادہ تر سنگل سٹوری گھر، مارکیٹیں یا سرکاری عمارتیں ہوتی تھیں۔ اب آسمان کو چھونے والی بلڈنگیں موجود ہیں۔ اوپر نیچے کئی کئی منزلہ فلائی اووَرز بن گئے ہیں۔ تعمیرات کے اعتبار سے دنیا کے عمدہ نمونے یہاں بن رہے ہیں لیکن خوبصورت، جدید اور کثیر تعمیراتی منصوبوں کے باوجود لوگ پہلے سے زیادہ بے گھر ہو گئے ہیں۔ پچھلی دہائیوں میں پسند کی شادی معاشرے میں عموماً ناپسند کی جاتی تھی۔ اب گھرگھر میں پسند کی شادی کو اپنا حق سمجھا جارہا ہے۔ نہ جانے کیوں جب پسند کی شادی کم تھی تو طلاق بھی کم تھی۔ اب پسند کی شادی عام ہے تو طلاق بھی عام ہے۔ پہلے لڑکیاں اور خواتین اپنا آپ ڈھانپ کر رکھتی تھیں۔ اب ترقی یافتہ دور میں اپنا آپ ڈھانپنا یا نہ ڈھانپنا اپنی مرضی کہلاتی ہے۔ پہلے لڑکے اور لڑکیوں اور مرد اور خواتین کا باہمی میل جول کم تھا۔ اب ترقی یافتہ جدید سوچ کے مطابق مخلوط تعلیم اور کام کرنے کی مخلوط جگہ کے باعث لڑکے اور لڑکیوں اور مرد اور خواتین میں براہِ راست باہمی میل جول بہت زیادہ ہوگیا ہے۔ اس میل جول کے نتیجے میں شادی کے بغیر لڑکے اور لڑکیوں اور مرد اور خواتین میں درپردہ رابطے بھی پہلے سے بہت بڑھ گئے ہیں۔ کیا یہی معاشرتی ترقی ہے؟ پہلے صرف سیاست دان سیاسی ہوتے تھے۔ اب ہرفرد سیاسی شعور کا ایفل ٹاور ہے۔ اتنے زیادہ اجتماعی شعور کے باوجود ہماری سیاست پہلے سے زیادہ ڈھیٹ، ضدی اور بدتہذیب ہوگئی ہے۔ کیا یہی سیاسی ترقی ہے؟ پچھلی دہائیوں کی نسبت ہم نے واقعی بہت ترقی کرلی ہے لیکن کیا واقعی ہم ترقی یافتہ ہو رہے ہیں یا اپنی معاشرتی اقدار اور ثقافت سے دور ہو رہے ہیں؟ کیا معاشرتی اقدار اور ثقافت سے دور ہونا ہی ترقی ہے؟ کیا سیمنٹ، پتھر، اینٹ اور سریے سے بننے والے بڑے بڑے پراجیکٹس کا نام ہی ترقی ہے؟ ہنس کی چال چلنے کے چکر میں کہیں ہم اپنی چال تو نہیں بھول رہے؟ کیا پرانے لوگ ترقی یافتہ تھے یا نئے لوگ ترقی یافتہ ہیں؟ ترقی کسے کہتے ہیں؟ کیا یہی ترقی ہے؟