پچھلے کچھ عرصہ سے وزیراعظم عمران خان قوم کو یہ نوید سنا رہے ہیں کہ ہماری حکومت تعمیراتی شعبہ پر فوکس کر رہی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ تعمیراتی شعبہ سے چونکہ بہت سارے اور شعبہ جات جڑے ہوئے ہیں اس لیے ان شعبہ جات میں بھی ترقی کی لہر چل نکلے گی ۔ ہر طرف کام و کاروبار ہونگے ۔ اس طرح لوگوں کو روزگار ملے گا، نوکریاں ملیں گی اور رہنے کے لیے اپنے گھر ملیں گے ۔ گھر بنانے کے لیے کمرشل بنک غریبوں کو سستے ریٹس پر قرضے دیں گے ۔ یوں اپنے ملک میں معاشی ترقی ہر سو نظر آئیگی اور لوگ خوشحال ہو جا ئینگے ۔آپ جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک کا سرمایہ دار ہو، وہ عام آدمی سے کئی گنا تیز اور sharp ہوتا ہے ۔ وزیراعظم کے یہ عزائم سن کر اس ملک کے تعمیراتی شعبہ جات سے منسلک سرمایہ داروں نے کمریں کس لیں۔ویسے بھی آپ کو معلوم ہے کہ اپنے وزیراعظم کے ارد گرد سرمایہ داران ہی ہوتے ہیں ۔غریب آدمی سے کیا ان کا سروکار ۔ حاسد لوگ ان کے ارد گرد ہر دم پائے جانے والے امُراء کو ان کی اے ٹی ایمز(ATMs ) کہتے ہیں۔ بہر طور ان لوگوں نے اپنا کام دکھانا شروع کر دیا ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ تعمیراتی شعبہ میں سیمنٹ ایک اہم جزو ہے ۔ کوئی بھی اور کسی بھی قسم کی تعمیر ہونی ہو اس میں سیمنٹ کا استعمال لازمی ہے ۔ اپنے ملک میں سیمنٹ فیکٹریاں لگانا ملک کے بڑے سرمایہ داران کا کام ہے۔ان کے کئی گروپس ہیں مثلاً میاں منشا گروپ ، سہگل گروپ ، میپل لیف سیمنٹ ، بیسٹ وے اور لکی جیسے گروپ ۔ اس نیک کام میں اپنی افواج بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ان کی بھی کئی فیکٹریاں ہیں جیسے فوجی سیمنٹ وغیرہ ۔ان سب سیمنٹ مینو فیکچرز نے ایک آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچرر ایسوسی ایشنall pakistan cement manufacturer associ قائم کر رکھی ہے۔ جسے APCMA کہتے ہیں۔ یہاں سب اکٹھے بیٹھ جاتے ہیں اور ایک دوسرے سے مشاورت کے بعد سیمنٹ کے نئے ریٹس مقرر کر کے عوام کو بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے اس قسم کے گٹھ جوڑ کے ذریعے عوام کو لوٹنے سے بچانے کے لیے اور ان کی ایسی غیر مسابقتی روش کو روکنے کے لیے حکومت کا ایک ادارہ موجود ہے ۔ اس ادارہ کو مسابقتی کمشن آف پاکستان (سی سی پی )کہتے ہیں۔ لیکن آپ اسی ملک میں رہتے ہیں ۔ ایسے حکومتی ادارے ان ارب کھرب پتی سیٹھوں کے نوکروں کا رول ادا کرتے ہیں ۔انہوں نے ان پر کیا نگاہ رکھنی ہے۔ جونہی تعمیراتی سرگرمیاں بڑھنا شروع ہوئیں ان سیٹھوں نے اپنی سیمنٹ کی پیداوار کم کردی ۔ اگر پہلے ان کی پیداوار 100% تھی تو انہوں نے اپنی پیداوار 65% کردی ۔ ظاہر ہے اس سے سیمنٹ کی پیداوار طلب سے کم ہو گئی ۔ ان حالات میں انہوں نے سیمنٹ کی قیمت فروخت میں اضافہ کرنا شروع کر دیا۔تقابلی جائزہ کے لیے میں اب آپ کے سامنے ایک بوری کے مختلف مہینوں کے ریٹس رکھتا ہوں۔آپ ملاحظہ کریں۔ اکتوبر 2020 ء میں ایک بوری سیمنٹ 480 روپے میں ڈیلر کو ملتی تھی ۔ ریٹل میں 500 ۔510 روپے میں بکتی تھی۔ صرف دو مہینہ بعد یعنی 3 دسمبر 2020 ء کو انہوں نے یہی بوری سیمنٹ 550 روپے میں بیچنی شروع کر دی ۔پھر ہر مہینہ دس سے پندرہ روپے بڑھاتے بڑھاتے اب اگست کے مہینہ کے آغاز میں ایک بوری سیمنٹ کی قیمت 655 روپے تک کر دی گئی ہے۔ ریٹیل والے تو 680 میں بیچ رہے ہونگے۔
کوئی تو ان قیمتوں کے بڑھنے کی وجہ بتائے ! کیا سیمنٹ بنانے کا خام مال مہنگا ہو گیا ہے۔ سیمنٹ کا خام مال تو جپسم ہے جو ہمارے اپنے صوبہ میں ڈھیروں ڈھیر موجود ہے ،جسے پیس پیس کر سیمنٹ تیا ر کرلی جاتی ہے۔جب سیمنٹ کی ایک بوری 700 روپے بکے گی تو کیا تعمیرات ہونگی۔جو لوگ اس کاروبار سے منسلک ہیں وہ تو کہتے ہیں کہ اگلے ایک دو مہینہ میں سیمنٹ کی بوری 730 روپے تک پہنچنے والی ہے۔ وزیراعظم اس کا نوٹس لیں اور مسابقتی کمشن کے مردہ گھوڑے میں کوئی روح پھونک کر اسے زندہ کریں ۔ سیمنٹ بنانے والوں پر واضح کر دیں کہ اگر انہوں نے یہی چلن جاری رکھا تو ہم سیمنٹ باہر سے امپورٹ کرنا شروع کر دیں گے ۔ مثال کے طور پر سستی سیمنٹ ایران جیسے ملک سے منگوائی جا سکتی ہے ۔اسی طرح تعمیراتی شعبہ میں دوسری اہم ایٹم سٹیل ہے ۔ اس کی قیمت میں بھی دنوں میں فی کلو گرام اضافہ ہو رہا ہے۔وزیراعظم کی توجہ فوراً اس طرف مبذول کرائی جائے ورنہ تعمیراتی شعبہ سے لگائی گئی ان کی امیدیںنہ صرف ٹوٹ جائیں گی بلکہ ملک کے معاشی حالات کو بہت گزند پہنچے گی۔
جن لوگوں نے رہائشی فلیٹس پر منقسم بڑے بڑے پلازے شروع کر رکھے ہیں اور لوگوںکے ساتھ ا یک ڈیل کرچکے ہیں، و ہ تو بہت پریشان ہیں کیونکہ انہوں نے تو ہر صورت اپنی ڈیل کے مطابق لوگوں کو فلیٹس مہیا کر نے ہیں ۔ ان فلیٹس کا ایک سٹینڈرد بھی معاہدوں میں طے پا چکا ہے ۔ اس روز بروز بڑھتی مہنگائی میں وہ اپنے طے شدہ معاہدوں پر کیسے پورا اتریں گے۔ اسی طرح تعمیرات میں استعمال ہونے والی دوسری لوازمات کی قیمتوں میں بھی روزانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ تعمیراتی منصوبوں میں شیشے کا استعمال بھی ایک بنیادی ضرورت کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ شیشے کے ریٹس میں 20% اضافہ ہو چکا ہے ۔ اسی طرح پلاسٹک کی بنی کئی ایٹمز بھی تعمیرات میں استعمال ہوتی ہیں جن کی قیمتوں میں اب تک 15% تک اضافہ ہو چکا ہے۔ان بڑھتی قیمتوں کے پیش نظر وہ لوگ تو بہت پریشان اور گو مگو کے عالم میںہیں جنہوں بڑے بڑے پلازوں اور بلڈنگز کے نقشے منظوری کے لیے جمع کرارکھے ہیں اور محکمہ ماحولیات کو این او سی کے لیے اپلائی کر رکھا ہے۔ اور کچھ لوگ تو ان رہائشی بلڈنگز کے متعلق بھی پریشان کن سوچیں لیے پھرتے ہیں جنہیں حکومت نے خود شروع کر رکھا ہے۔ لوگ کہتے ہیں اس بڑھتی مہنگائی میں نہ جانے حکومت ان ہائی رائز بلڈنگز کو پایہ تکمیل تک پہنچا بھی پائے گی یا یہ یوں ہی درمیان میں رہ جائیں گی اور قومی دولت کے زیاں کی نشانی بن جائیں گی۔ آپ کو یاد ہوگا کسی زمانے میں سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو کے شروع کیے گئے رہائشی منصوبے جرائم پیشہ لوگوں اور آوارہ کتوں کی رہائش گاہوں میں تبدیل ہو کے رہ گئے تھے۔اللہ اس غریب ملک کی دولت کو اپنی حفاظت میں رکھے۔وزیر اعظم کی ٹیم اور ان کے بہی خواہوں کو تعمیراتی شعبہ کے مختلف لوازمات کی قیمتوں اور دستیابی کی صورت حال پر گہری اور قریبی نظر رکھنی چاہیے ۔