کوئی ہے؟ یہ پکار آپ نے کبھی نہ کبھی سنی ہو گی، خود پکارا ہو گا، کسی فلم میں دیکھا ہو گا۔ یہ عموماً مدد کے لیے بولا جانے والا فقرہ ہے یا سناٹے کے خوف کو توڑنے کے لیے اور اگر یہی الفاظ بند گھر، کھلی جگہ ، کھلے آسمان کے نیچے با آواز بلند بولے جائیں تو بعض اوقات لوٹ کر اپنے ہی کانوں کو آتے ہیں کہ ’’کوئی نہیں ہے یہ تیری ہی آواز ہے ‘‘۔
جب سناٹے بولنے لگ جائیں، خاموشی باتیں کرے، شور بے معنی ہوجائے تو ایسا ماحول طاری ہو گا جو کہ کسی سزائے موت کے قیدی کی آخری ملاقات کے بعد جیل میں پیدا ہوتا ہے۔ سراسیمگی ، حیرت، آنکھیں خیرہ، جسم ، بت اور روح دلگیر والا واقعہ ہے۔ یہ کیفیت آج پوری قوم کی ہے جہاں جہاں وفاقی حکومت اور اس کے اتحادی ہیںوہاں کے بسنے والے بدنصیبوں میں شامل ہیں۔ اگر کسی کا کوئی جائز کام ہے، حق ہے، کسی کے ساتھ زیادتی ہے، کوئی بے روزگار ہے، بیمار ہے ، کسی سرکاری محکمہ میں کوئی کام ہے تو مبتلا شخص سب سے پہلا سوال کرے گا کہ اسکی داد رسی کون کرے گا؟ وہ اپنے خاندان، علاقہ، محلہ، گلی ،حلقہ احباب میں اپنے معاملے کا ذکر کرے گا۔ جس سے ذکر ہو گا وہ ماتھے پر ہاتھ رکھے گاکہ اس کی شنوائی کیسے ہو گی؟ کون اس کی داد رسی کرے گا؟ نظام تو حکومت وقت نے مفلوج کر دیا۔میں حلفاً کہتا ہوں کہ میں جب بھی لکھنے بیٹھوں اول تو میرا ارادہ ہوتاہے کہ سیاست پر نہ لکھوں ا ور پھر اگر لکھوں تو حکومت کی کارکردگی کا کوئی ایک مثبت پہلو تو ضرور لکھوں مگر میں بالکل ناکام رہا۔
آج جو جس عہدے پر ہے، وہ نمائشی عہدہ ہے۔ معمولی سا کام بھی ہو تو بندہ پوچھے کہ یہ گورنر کر سکے گا جواب نفی میں، متعلقہ محکمہ کا وزیر کر سکے گا جواب نفی میں۔
کیا وزیر اعلیٰ کر سکتا ہے جواب نفی، میں کہتا ہوں پنجاب میں تولوگ بالکل لاوارث بن کر رہ گئے ۔ سندھ میں آپ کو ہر محکمہ اور ہر وزارت کا عہدے دار عوامی کام کرتا ہوا نظر آئے گا۔ مگر پنجاب میں سب نمائشی پہلوان ہیں تو پھر چل کیسے رہا ہے جواب چند لوگ اور بیوروکریسی کی جتنی موج اس دور میں ہے اس سے پہلے غلام محمد یا یحییٰ خان کے ادوار میں بھی شاید نہیں تھی۔اب آزاد کشمیر تحریک عدم انصاف یا تحریک نفرت و نفاق کے سپرد کر دیا گیا ہے ۔ اللہ خیر کرے!حکومت کی ساری توجہ مخالفین کو کچلنے اورنفرت پھیلانے پر ہے جس کا آزاد کشمیر متحمل نہیں کیونکہ باقی ملک میں نفرت کے بیج ایسے بوئے ہیں کہ آنے والی نسلیں اس کا خمیازہ بھگتیں گی۔ وطن عزیز کیسا ملک ہے جہاں لوگ سر عام بات کرتے ہیں کہ اگر ن لیگ یعنی نواز شریف اور مریم نواز نے مقتدرہ کے ساتھ سمجھوتہ نہ کیا کوئی ڈیل نہ ہوئی بیانیہ نہ بدلا تو آئندہ 5 سال بھی اسی نا اہل سیٹ اپ کے ہوں گے۔ اب آپ ایک ایک کر کے اس وقت حکمران جماعت اور اتحادیوں پر نظر ڈالیں شہد شراب کی بوتل میں لے کر سر پٹ دوڑنے والا نظر میں ضرور رکھیے گا۔ اس کی آواز ، بال، کردار ، زبان ویسے تو تقریباً سبھی ایک جیسے ہیں مگر یہ شاہکار ہے۔
ان کو ایک نظر دیکھیں اور ان کا ماضی، حال اور رفتار بھی ذہن میں رکھیں پھر وطن عزیز کے مستقبل کا تصور کر لیں۔ عمران خان کہتے ہیں دو خاندانوں نے بڑی بے شرمی سے لوٹاہے، عوام پوچھتے ہیں آپ نے کون سے اپنے ساتھ قرونِ اولیٰ کے مومنین شریک اقتدار کیے ہوئے ہیں اور آپ کے دور میں کرپشن کا کاروبار گلشن کا کاروبار بنا پڑا ہے۔ اشیائے خورنی ، یوٹیلیٹی بلز، پٹرولیم کی قیمتیں اور ملک میں بیروزگاری ، بیماری اس پر نفرت کی بنیاد پر قوم میں خلفشار کو مدنظر رکھیں، پھر آپ اندازہ کریں کہ ہم کدھر جا رہے ہیں۔ ہمارا کل کیا ہو گا؟
اس پر جناب عمران کا یہ کہنا کہ ہمارے سوا چوائس نہیں سوال یہ ہے کہ کس کے پاس چوائس نہیں عوام کی تو آپ کبھی بھی چوائس نہیں رہے اگر آپ مقتدرہ کی بات کرتے ہیں۔ میرے خیال سے جب ان کو اپنی عزت جاتی نظر آئے گی تو پھر وہ چوائس کو ضرور بدلیں گے۔ انہیں اپنی عزت، وقار اور پروگرام عزیز ہے راستے میں چاہے مشرف بھی آجائے وہ تحلیل ہوجایا کرتا ہے۔ ان کے دوبارہ آنے کی امید پر مجھے ایک واقعہ جو لطیفہ بن کر لوگوں میں موضوع بنا ایک دفعہ ایک شخص کو تیز رفتا وین نے ٹکر مار دی جس کو سائیڈ مارنا کہتے ہیں۔ وہ الٹ بازیاں کھاتا ہوا سنبھل گیا، بچ گیا یعنی زندگی بچ گئی ۔ یکدم رونے اور چلانے لگا موقع پر موجود لوگوں نے کہا کہ تم بچ گئے، زندگی بچ گئی ۔تمہارے ہاتھ میں جو سودا سلف تھا برباد ہوا مگر تم بچ گئے روتے کیوں ہو اس زخمی نے کہا کہ میں ان چوٹوں پر نہیں روتا آپ لوگ مجھے خواہ مخواہ تسلی نہ دیں وین کے پیچھے لکھا ہوا تھا پھر ملیں گے۔ سوچتا ہوں کہ اب تو بچ گیا ہوں پھر کیسے بچوں گا لوگوں نے کہا یار! وہ پیار سے لکھا ہوا تھا اور ویسے بھی اب وہ گیا دفعہ ہو گیا وہ مضروب کہنے لگا نہیں اس وین ڈرائیور سے میں واقف ہوں یہ اچانک یوٹرن لے لیتا ہے۔ جب عمران خان ٹرک سے گرے تھے تو زخمی حالت میں عوام کو پیغام دیا کہ میرے پانچ سال تو نکل جائیں گے مگر آپ کے نہیں اب عوام کہتے ہیں آپ رہے تو ہماراسانس نکل جائے گا۔ جس ملک کے مسلمہ محاورے ہوں دعویٰ جھوٹا اور قبضہ سچا ۔ اس میں وین کی سیٹ سے لے کر اقتدار تک قبضہ گروپ ہی نظر آئیں گے جس معاشرت میں باقاعدہ اخبار اشتہار ہو کہ مشتری ہوشیار باش (یعنی فراڈیے کو کچھ نہیں کہنا) خریدار کو ہوشیار رہنا ہو گا؟ اس میں دھوکہ، فراڈ کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ پٹواری سے لے کر چیف سیکرٹری، سپاہی سے لے کر آئی جی مجسٹریٹ سے چیف جسٹس اور کونسلر سے لے کر صدر تک فلاں سخت ہے، فلاں نرم ہے۔ فلاں اچھا ہے، فلاں برا ہے۔ آپ کو یہ اضافی تعریف دنیا کے کسی نظام میں کام کرنے والے لوگوں میں نہیں سنائی دے گی سوائے وطن عزیز کے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں تو تصور بھی ممکن نہیں ہوتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جہاں قانون سخت ہے، وہاں عہدیدار سخت ہو جہاں قانون نرم ہے وہاں عہدیدار نرم ہو۔ ہمارا بہت بڑامسئلہ یہ ہے کہ یہاں جو کسی عہدے پر ہے وہ آئین اور قانون میں دی گئی ذمہ داری کو اپنے مزاج کے تابع کر لیتا ہے اور یوں اس کا مزاج قانون اور آئین کا درجہ پالیتا ہے اور عوام یا سائلین کی تقدیر اس کے مزاج کے رحم و کرم پر ہوتی ہے نہ کہ آئین اور قانون ، حق اور اصول کی بنیاد پر۔ یہیں سے توہم پرستی اور پیر پرستی اور ان کی دکانداریاں شروع ہوتی ہیں۔ یہیں سے رشوت اورسفارش کا بازار مِصرکے بازار بلکہ بازار حسن کو شکست دے دیتا ہے اور مسائل و مصیبت زدہ مظلوم پکار اٹھتا ہے کہ ’’کوئی‘‘ ہے؟
حاکم وقت ترے زر، ترے دربار پہ تف
تخت پر تف ہے ہمیشہ تری دستار پہ تف
(ایسا ظالم حاکم ہر وہ شخص ہے جو کسی دوسرے پرناجائز مسلط ہے)