کشمیریوں کے لیے کوئی دن سکون کا نہیں عید جیسے مذہبی تہواروں پر بھی خون بہایا جاتا ہے جعلی مقابلوں میں فوج نوجوانوں کو شہید کر رہی ہے پکڑدھکڑ اور چھاپوں سے زندگی اجیرن ہو چکی ہے جس سے سیا حت ختم اور کاروبار تباہ ہو چکے ہیں مزید براں کشمیریوں کومعاشی طور پر بدحال کرنے کے لیے فو ج زمینوں پر قبضے کر رہی ہے قابض بھارت کے ظلم و جبر سے تنگ آکر آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے اب تک پانچ لاکھ کشمیری جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں لیکن تمام تر قربانیوں کے باوجود پاکستان سے محبت میں کمی نہیں آئی الحاقِ پاکستان کا علم تھامے کشمیری جانی و مالی قربانیاں دے رہے ہیں ایسی محبت وچاہت کا جواب محبت وچاہت سے دینے کے لیے پاکستان کو لائحہ عمل بنا کر عمل کرنا چاہیے تاکہ ہر روز ایک نئی قیامت کا سامنا کرنے والے اہلِ کشمیر پر ظلم کی سیاہ رات ختم ہو سکے۔
پانچ اگست 2019 کابھارتی قدم اہلِ نظر کے لیے کسی طور حیران کُن نہیں تھا کیونکہ جب سے بی جے پی جیسی انتہا پسند نظریات کی حامل جماعت برسرِ اقتدار آئی ہے تب سے ہی اِس بات کا اندیشہ تھا کہ قابض بھارت کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر سکتا ہے حریت کانفرنس کے رہنما سید علی گیلانی ،میر واعظ عمر فارو ق ،یٰسین ملک ،سید شبیر شاہ ،اورسیدہ آسیہ اندرابی جیسے لوگ باربار آگاہ کر رہے تھے کہ آرایس ایس نظریات سے متاثر بی جے پی کے عزائم واضح ہیں اور وہ کسی وقت بھی کشمیر کو ضم کر نے جیسا انتہائی قدم اُٹھا سکتی ہے یہاں تک کہ محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ جیسے اقتدار پرست کٹھ پتلی سیاستدان بھی دہائی دے رہے تھے کہ بھارتی حکمران کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کا اِرادہ رکھتے ہیں ایسے عزائم کا اظہار مودی اور امیت شاہ سمیت کئی سیاستدانوںنے انتخابات کے دوران بھی کیا تھا امیت شاہ نے تو یہاں تک کہہ دیاتھا کہ کشمیر کے بارے خصوصی حیثیت کا تعین کرنے والی آئینی شق370کا خاتمہ بی جے پی کے منشور میں شامل ہے جس سے واضح ہونے لگا تھا کہ بھارت عالمی وعدوں اور یواین اوکی قراردادوں سے انحراف کر سکتا ہے اِس لیے یہ کہنا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا فیصلہ اچانک ہوا ہے درست نہیں بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایسا کیا گیا ہے مگر پاکستانی قیادت بروقت ادراک نہ کرسکی اگر ادراک ہوتا تو عالمی سطح پر سفارتکاری سے کام لیا جاتا لیکن ہلچل کے بجائے خاموشی طاری رہی جس سے بھارت کو مظالم جاری رکھنے کے ساتھ ایک اور ظالمانہ فیصلے کی شہ ملی پانچ اگست کا بھارتی فیصلہ 27اکتوبر 1947کے ظالمانہ فیصلے اور المیے سے کسی طور کم نہیں مگر ہماری روایتی سُستی اور غفلت ختم نہیں ہو سکی اگر ہماری قیادت نے باہمی سرپھٹول چھوڑ کر قومی مفادات کی نگہبانی کا تہیہ کیا ہوتا توعالمی قوتیں بھارت کے یکطرفہ فیصلے سے لاتعلق نہ ہوتیں اور ایٹمی ملک یوں بے توقیر نہ ہوتا کشمیر کے لیے پاکستان تین بڑی جنگیں لڑ چکاہے اگر پاکستانی سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ خاموشی اختیار کرنے سے بھارت آئندہ جارحانہ عزائم سے باز آجائے گا تو یہ اُن کی خام خیالی ہے جس کا ثبوت بلوچستان ،کے پی کے ،گلگت بلتستان میں دہشت گردوں کی سرپرستی ہے بھارت کو جارحانہ عزائم سے باز رکھنے اور کشمیریوں سے یکجہتی کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اہلِ کشمیر کی سفارتی،سیاسی اور اخلاقی مدد کے حوالے سے پوری قوم اور قیادت یکسو ہوپورے سال میںصرف ایک دن یاددہانی کے طور پر یومِ استحصال منانے تک محدود رہنا مناسب نہیں ۔
بھارتی قیادت شروع سے ہی کشمیر ہڑپ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے چاہے کانگرس اقتدار میں ہو یا بی جے پی ،سب کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے پر متفق ہیں حالانکہ تقسیمِ ہند میں ریاستوں کوبھارت یا پاکستان سے الحاق کرنے یا آزاد رہنے کا حق دیا گیاتھا اسی بناپر کشمیریوں نے الحاقِ پاکستان کی تحریک شروع کی مگر ڈوگرہ راجہ نے عوامی خواہشات کے مطابق فیصلہ کرنے کے بجائے ٹال مٹول کرتے ہوئے بھارت سے راہ ورسم بڑھانے شروع کردیے جس سے کشمیریوں میں بے چینی بڑھی اور وادی کے طول وعرض میں ہنگامے پھوٹ پڑے انہی ایام میں بھارت نے اپنی فوج کشمیر میں بھیج دی جس سے ہنگامے مسلح جدوجہد کی شکل اختیار کر گئے جنہیں کچلنے کے لیے قابض فوج نے قتلِ عام شروع کر دیا اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کے لیے پاکستانی مجاہدین نے بھی ہتھیار اُٹھالیے اور گوریلا جنگ شروع کردی جس سے بھارتی فوج محاصرے میں آگئی کشمیر ہاتھ سے نکلتا دیکھ کربھارت یو این او چلا گیا اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق الحاق کا فیصلہ کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے شرط عائد کی کہ وادی میں حالات معمول پر لانے کے لیے پہلے مجاہدین کو نکالا جائے جبکہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کی قانونی ،اخلاقی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے بھارتی فوج کے کشمیر میں داخل ہونے پر احتجاج کیا جس کے نتیجے میں کشمیر کے متعلق سکیورٹی کو نسل نے بیس قراردادیں منظور کیں بعد میں دونوں فریقوں کے موقف کے پیشِ نظر عالمی غورو فکر کے بعد 1948 میں سکیورٹی کونسل نے ایک جامع قراردادنمبری 47منظور کی اِس قرارداد میں پاکستان کو مجاہدین اور فوج کے انخلا کاپابند بناتے ہوئے تمام بھارتی فوجیوں کونکل جانے کا کہا گیا تاکہ خطے کو غیر مسلح کرنے کے بعدرائے شماری کرانے کے لیے ایڈ منسٹریٹر تعینات کیے جائیں جس پر دونوں ممالک نے اتفاق کیا مگر اقوامِ متحدہ آج تک اپنی ہی پاس کردہ قراردادوں پر عمل کرانے میں ناکام ہے کشمیر پر دونوں ملک 1965، 1971، 1999میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں اب بھی اگر اقوامِ متحدہ مسلہ حل نہیں کراتی تو مستقبل میں جوہری تصادم کا امکان موجود ہے مسئلہ کی خطرناکی سے دنیا کو آگاہ کرنے منظم انداز میں سفارتی مُہم کی ضرورت ہے ۔
بھارت ایک ایسا جارح ملک ہے جو جارحانہ عزائم کسی سے پوشیدہ نہیں رکھتابنگلہ دیش بنانے اور ہمسایہ ملک کوتوڑنے پے فخر کرتاہے اور کسی قاعدے و قانون کو خاطر میں نہیں لاتااب بھی آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے سے قبل ریاستی قانون ساز اسمبلی سے مشاورت تک نہیں کی جوآئین کے آرٹیکل370 کی شق(3)کے تحت لازم تھا بلکہ فیصلے سے قبل ہی جون 2018میں پی ڈی پی اور بی جے پی کے اتحاد کے خاتمے کی آڑ میں اسمبلی تحلیل کرتے ہوئے پہلے گورنر راج اور پھر صدارتی راج نافذ کر دیامقبوضہ کشمیر میں منتخب حکومت نہ ہونے پر 2019کے صدارتی حکم نامے کی رو سے گورنر کو ریاستی اسمبلی کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے آرٹیکل370کے بارے صدر کو سفارشات بھجوانے کا حکم دیا اسی تناظر میں بھارتی صدر نے گزشتہ دنوں وادی کا دورہ کیا جس کے دوران پورے مقبوضہ کشمیر میں ہڑتال کی گئی یہ قابض ملک کے صدر کی آمد کے خلاف نفرت کا اظہار تھا لیکن بھارت کو عالمی سطح پربظاہر دبائو کا سامنا نہیں اسی لیے وادی کو ضم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے لیکن مسلسل گھروں کے محاصرے ،جبر تشدد، شہادتوں ،گرفتاریوں اور چادروچار دیواری کا تقدس پامال ہونے کے باوجود کشمیریوں کے عزم و حوصلے میں کمی نہیں آئی شہدا کو پاکستانی پرچم میں سپردِ خاک کرتے ہیں اِس سے واضح ہوتاہے کہ مودی کی فاشسٹ حکومت کی غیر قانونی ،غیر آئینی اور یکطرفہ فیصلوں کو کشمیری تسلیم نہیں کرتے مگر اقوامِ متحدہ، ایمنسٹی انٹر نیشنل،ہیومن رائٹس کمیشن، جنیواسائیڈ واچ سمیت یورپی کمیشن برائے انسانی حقوق جیسے اِدارے بھارتی فیصلے سے پیداہونے والے حالات کوناروا، غیر قانونی اور یکطرفہ قرار دینے لگے ہیں مگر اِس میں پاکستان کا کردار نظر نہیں آتا یومِ استحصال کشمیر منانا ٹھیک ہے لیکن ایک دن تک محدود رہنے کے بجائے پاکستان منظم طریقے سے سفارتی مُہم شروع کرے تو عالمی طاقتوں کی چشم پوشی کے باوجود عالمی رائے عامہ ہموار ہو سکتی ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاکستانی قیادت یکسو ہواور باہمی نفاق کو قومی مفاد پر حاوی نہ ہونے دے۔