اسلام آباد: عدالت عظمیٰ کی جانب سے ڈپٹی سپیکر قومی اسملبی قاسم سوری کی رولنگ کو خلاف آئین قرار دینے اور اسمبلی اور حکومت کی بحالی کے بعد وزیراعظم عمران خان ایک بار پھر ہفتے کو تحریک عدم اعتماد کا سامنا کریں گے۔
نیو نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکمران جماعت پی ٹی آئی بظاہر مشکل کا شکار ہو گئی ہے اور وزیراعظم اور ان کے ساتھی اس حوالے سے اگلے لائحہ عمل پر مشاورت کر رہے ہیں۔ عمران خان اور انکی جماعت کے پاس اس وقت تین آپشنز ہیں جن کو استعمال کر سکتے ہیں۔
اپوزیشن میں بیٹھنا
حکمران جماعت کے پاس ایک آپشن تو یہ ہے کہ ھفتہ کو ہونے والی ووٹنگ میں حصہ لے اور شکست کی صورت میں باعزت طور پر اسے تسلیم کرکے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ جائے۔یا پھر ووٹنگ سے قبل ہی وزیراعظم عمران خان مستعفی ہو جائیں اور ایوان نئے قائد کا انتخاب کرلے۔
اسمبلیوں سے مشترکہ استعفے
وزیراعظم کے قریبی حلقے اس حوالے سے عندیہ دے چکے ہیں کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد میں کامیابی کی صورت میں پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی گروپ کی شکل میں مستعفی ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں نئی حکومت کو اتنی بڑی تعداد میں ارکان کے استعفوں کی وجہ سے مشکلات آ سکتی ہیں مگر آئینی ماہرین کے مطابق استعفوں کے باجود نئی حکومت کے قائم ہونے میں رکاوٹ نہیں ہو گی تاہم اسے اخلاقی اور قانونی جواز کے حوالے سے مشکلات ہوں گی۔
سپیکر کی مدد سے اپوزیشن کے لیے تکنیکی مسائل
حکومت کے پاس ایک آپشن یہ بھی ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی کے ذریعے ووٹنگ کے عمل میں کوئی تکنیکی مسئلہ پیدا کر دیں۔ حالانکہ سپریم کورٹ کی جانب ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دینے کے بعد سپیکر پر دباؤ ہو گا کہ کوئی ایسا کام نہ کریں کہ دوبارہ سے معاملہ عدالت میں جائے تاہم کوئی قانونی نکتہ ڈھونڈنے کی کوشش پھر بھی کی جا سکتی ہے۔