اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈپٹی سپیکر رولنگ کیخلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو افطاری کے بعد سنایا جائے گا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے دوران سماعت ریمارکس دئیے کہ واضح نظر آ رہا ہے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ غلط ہے، اب آگے کیا ہونا ہے یہ دیکھنے والی بات ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ عدالت نے حالات و نتائج کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا بلکہ آئین کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے ، کل کو کوئی سپیکر آئے گا وہ اپنی مرضی کرے گا۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ سپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس کی سماعت کر رہا ہے جس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اگر کسی دوسرے کے پاس اکثریت ہے تو حکومت الیکشن کا اعلان کر دے، الیکشن کرانے پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور ہر بار الیکشن سے قوم کا اربوں کا نقصان ہوگا، یہ قومی مفاد ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کے سامنے معاملہ ہاؤس کی کارروائی کا ہے جبکہ عدالت نے ماضی میں بھی پارلیمان کی کاروائی میں مداخلت نہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ عدالت نے قومی مفاد کو دیکھنا ہے۔
امتیاز صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایوان کی کارروائی عدلیہ کے اختیار سے باہر ہے بلکہ عدالت پارلیمان کو اپنا گند خود صاف کرنے کا کہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ انتخابات کی کال دے کر 90 روز کیلئے ملک کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے اور اب وزیراعظم صدر کی ہدایات پر کام کر رہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر مخلوط حکومت بنتی ہے تو کیا ممکن ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو دیوار سے لگا دیا جائے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست گزاروں کی جانب سے کہا گیا لیو گرانٹ ہونے کے بعد رولنگ نہیں آ سکتی، درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے رولنگ آ سکتی تھی، اس معاملے پر آپ کیا کہیں گے؟ جس پر وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ اپوزیشن نے ڈپٹی سپیکر کی صدارت پر اعتراض نہیں کیا تھا، ڈپٹی سپیکر نے اپنے ذہن کے مطابق جو بہتر سمجھا وہ فیصلہ کیا اور پارلیمان کے اجلاس میں ڈپٹی سپیکر نے جو فیصلہ دیا اس پر وہ عدالت کو جوابدہ نہیں ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ قانون یہی ہے کہ پارلیمانی کارروائی کے استحقاق کا فیصلہ عدالت کرے گی اور عدالت جائزہ لے گی کہ کس حد تک کارروائی کو استحقاق حاصل ہے جس پر امتیاز صدیقی نے کہا کہ سپیکر کو اگر معلوم ہو کہ بیرونی فنڈنگ ہوئی یا ملکی سالمیت کو خطرہ ہے تو وہ قانون سے ہٹ کر بھی ملک کو بچائے گا اور سپیکر نے اپنے حلف کے مطابق بہتر فیصلہ کیا جبکہ سپیکر کا فیصلہ پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے۔
وزیراعظم کے وکیل نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 69 کو آرٹیکل 127 سے ملاکر پڑھیں تو پارلیمانی کارروئی کو مکمل تحفظ حاصل ہے اور سپریم کورٹ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمینٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا سپریم کورٹ ان پر عمل کرنے کی پابند نہیں۔
وزیراعظم کے وکیل نے دلائل دئیے کہ معذرت کےساتھ مائی لارڈ، 7 رکنی بینچ کے آپ پابند ہیں جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ان میں آبزرویشنز ہیں اور عدالت فیصلوں میں دی گئی آبزرویشنز کی پابند نہیں ہے جس پر وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر نے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی پر انحصار کیا اور نیشنل سیکیورٹی کمیٹی پر کوئی اثرانداز نہیں ہو سکتا۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا ڈپٹی سپیکر کے پاس کوئی مٹیریل دستیاب تھا جس کی بنیاد پر رولنگ دی؟ کیا ڈپٹی سپیکر کی رولنگ نیک نیتی پر مبنی تھی؟ ڈپٹی سپیکر کے سامنے قومی سلامتی کمیٹی کے منٹس کب رکھے گئے؟ جس پر وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر کے معاملے پر مجھے نہیں معلوم جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو آپ کو نہیں معلوم اس پر بات نا کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ کے مطابق ڈپٹی سپیکر کے پاس ووٹنگ کے دن مواد موجود تھا جس پر رولنگ دی گئی۔ انہوں نے استفسار کیا کہ وزیراعظم نے آرٹیکل 58 کی حدود کو توڑا، اس کے کیا نتائج ہوں گے؟ ڈپٹی سپیکر کو 28 مارچ کو ووٹنگ پر کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن ووٹنگ کے دن رولنگ آئی، سپیکر نے تحریک عدم اعتماد 28 مارچ کو کیوں مسترد نہیں کی؟ جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو ایوان ڈپٹی سپیکر کی رولنگ ختم کر سکتا تھا لیکن وزیراعظم نے صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسمبلی تحلیل کی۔
وزیر اعظم کے وکیل امتیاز صدیقی کے بعد نعیم بخاری نے دلائل دئیے اور کہا کہ میں صدر مملکت کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کے دلائل بھی لوں گا اور مزید اپنے دلائل بھی دوں گا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ سوال ہوا تھا پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد میں نہیں لیا جا سکتا، بتانا چاہتا ہوں کہ پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد سمیت ہر موقع پر لیا جا سکتا ہے۔
جسٹس مظہر عالم نے استفسار کیا کہ ڈپٹی سپیکر کے پاس رولنگ کا مواد کیا تھا جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ مجھے پہلے گزارشات کو فریز کرنے دیں، عدالت کے سوالات کا جواب دوں گا۔ اس پر جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دئیے کہ ہم بھی آپ کو سننے کیلئے بے تاب ہیں جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ کافی فریش لگ رہے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا سپیکر کا عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے؟ نعیم بخاری نے سوالیہ انداز میں کہا کہ اگر سپیکر پوائنٹ آف آرڈر مسترد کر دیتا تو کیا عدالت تب بھی مداخلت کرتی؟ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا زیر التواءتحریک عدم اعتماد پوائنٹ آف آرڈر پر مسترد ہو سکتی ہے؟ نعیم بخاری نے دلائل دئیے کہ پوائنٹ آف آرڈر پر سپیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے، پہلے کبھی ایسا ہوا نہیں لیکن سپیکر کا اختیار ضرور ہے، اب نئے انتخابات کا اعلان ہوچکا اور معاملہ عوام کے پاس ہے، اس لئے سپریم کورٹ کو اب یہ معاملہ نہیں دیکھنا چاہیے۔
وکیل نعیم بخاری نے قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے منٹس پیش کر دئیے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ یہ منٹس تو ہیں اس میں حاضری کی تفصیل کہاں ہے؟ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں کون کون شریک رہا؟ پارلیمانی کمیٹی اجلاس کے شرکاءکو کس نے بریفنگ دی؟ جس پر نعیم بخاری نے بتایا کہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کیلئے 29 افراد کو نوٹس دئیے گئے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا وزیر خارجہ کمیٹی کے اجلاس میں بھی شامل تھے جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ وزیر خارجہ شامل تھے یا نہیں میں معلوم کر کے بتاؤں گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کمیٹی اجلاس میں کل 11 کمیٹی ممبران شریک ہوئے جبکہ نعیم بخاری نے بتایا کہ کمیٹی کو نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر نے بریفنگ دی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ یہ ظاہر ہو رہا ہے وزیر خارجہ اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔
نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ وزیر خارجہ اس میٹنگ کے وقت چین کے دورے پر تھے جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مشیر برائے قومی سلامتی کا نام بھی نہیں ہے، تو نعیم بخاری نے کہا کہ بالکل وزیر خارجہ کو اس میٹنگ میں ہونا چاہئے تھا جبکہ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو خط پر بریفنگ دی گئی اور بتایا گیا کہ عدم اعتماد ناکام ہوئی تو نتائج اچھے نہیں ہوں گے ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کمیٹی میں 11 لوگ شریک ہوئے جبکہ بریفنگ دینے والوں کے نام میٹنگ منٹس میں شامل نہیں، اس پر نعیم بخاری نے کہا کہ مجھے ہدایت ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے منٹس سربمہر لفافے میں پیش کروں۔ نعیم بخاری نے فواد چوہدری کا 3 اپریل کا پوائنٹ آف آرڈر بھی عدالت میں پیش کیا اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر بحث نہیں ہوتی۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ فواد چوہدری نے عدم اعتماد آرٹیکل پانچ سے متصاد پر رولنگ مانگی، ممکن ہے اراکین کہتے یہ آئین کے خلاف ہے حق میں ووٹ نہیں دیں گے، ہو سکتا ہے کچھ لوگ خط کے تناظر میں تحریک کے خلاف ووٹ دیتے لیکن ووٹنگ کرانے کے بجائے تحریک ہی مسترد کر دی گئی، ڈپٹی سپیکر کو اس انداز میں تحریک مسترد کرنے کا اختیار نہیں تھا، سپیکر نے رولنگ کے بعد ووٹنگ کیوں نہیں کرائی؟ رولنگ میں عدم اعتماد مسترد کرنا شاید سپیکر کا اختیار نہیں تھا، ڈپٹی سپیکر کو آرٹیکل پانچ کی قرارداد پر ووٹنگ کرانی چاہئے تھی۔
وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ پارلیمینٹ میں جو ہوا اس کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ ممکن ہے کچھ ارکان رولنگ سے مطمئن ہوتے کچھ نہ ہوتے، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ آئین کا تقاضا ہے۔ جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دئیے کہ ایسا لگتا ہے ڈپٹی سپیکر کو لکھا ہوا ملا کہ یہ پڑھ دو، ایسا لگتا ہے رولنگ لکھ کر ڈپٹی سپیکر کو دی گئی انہوں نے پڑھ دی، اس پر نعیم بخاری نے کہا کہ یہ میرے علم میں نہیں، میں پارلیمینٹ میں نہیں تھا ۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ عوامی نمائندوں کی مرضی کے خلاف رولنگ کارروئی سے باہر نہیں؟ جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ پارلیمان کے اندر جو بھی ہو اسے آئینی تحفظ حاصل ہو گا جبکہ عدالت نے ریمارکس دئیے کہ کیا ڈپٹی سپیکر رولنگ میں نکات پارلیمانی کارروائی سے باہر نہ تھے ؟ تو نعیم بخاری نے کہا کہ حتمی فیصلہ عدالت کا ہو گا ہمارا موقف ہے رولنگ کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کیا اس کے خلاف سپیکر کے سامنے اپیل ہو سکتی تھی؟ اسمبلی ٹوٹنے سے آسمان گر پڑا ہے، آپ کیسے کہہ رہے ہیں رولنگ کو سپیکر کے سامنے چیلنج کیا جا سکتا ہے، آپ کے مطابق ارکان کو ڈپٹی سپیکر کے خلاف سپیکر کے پاس جانا چاہئے تھا، آسمان اس وقت گرا جب اسمبلی تحلیل کر دی گئی، ووٹنگ کرا دیتے تو شائد تحریک مسترد ہو جاتی، اسمبل تحلیل نہ ہوتی تو متاثر رکان کے پاس داد رسی کا طریقہ کیا تھا؟
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ارکان نئی عدم اعتماد لا سکتے تھے جس پر وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ سپیکر نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کی توثیق کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپشن کے باوجود دوسری سائیڈ کو سننے کا موقع نہیں دیا گیا جس پر وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ عدالت اسمبلی تحلیل کا جائزہ لے سکتی ہے تو جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ رولنگ پر اسمبلی تحلیل ہوئی اسے چھوڑ کر کیسے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 28 مارچ کوتحریک عدم اعتماد لیو گرانٹ ہوئی جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ لیو کون گرانٹ کرتا ہے؟ تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہاﺅس لیو گرانٹ کرتا ہے جبکہ پارلیمانی کارروائی کو عدالتی جائزے سے استثنیٰ حاصل ہے، کیس کا فیصلہ تفصیل میں جائے بغیر دیا جا سکتا ہے کہ کون وفادار ہے اور کون نہیں ، قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کی تفصیل کھلی عدالت میں نہیں دے سکتا، عدالت کسی کی وفاداری پر سوال اٹھائے بغیر بھی فیصلہ کر سکتی ہے ، قومی سلامتی کمیٹی میں انتہائی حساس نوعیت کے معاملات پر بریفنگ دی گئی، قومی سلامتی کمیٹی پر ان کیمرہ سماعت میں بریفنگ دینے کو تیار ہوں ، صدر مملکت کوئی وجہ یا حالات جانے بغیر اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم سب سے بڑے سٹیک ہولڈر ہیں اور اسمبلی توڑنے کا اختیار بھی وزیراعظم کے پاس ہے جبکہ اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے وزیراعظم کو وجوہات بتانے کی ضرورت نہیں اور اگر صدر مملکت سفارش پر فیصلہ نہ کریں تو 48 گھنٹے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہو جائے گی۔ تحریک عدم اعتماد پرووٹ ڈالنا کسی رکن کا بنیادی حق نہیں تھا بلکہ ووٹ ڈالنے کا حق آئین اور اسمبلی رولز سے مشروط ہے، سپیکر کسی رکن کو معطل کرے تو وہ بحالی کیلئے عدالت نہیں آ سکتا، حکومت کی تشکیل ایوان میں کی جاتی ہے جبکہ آئین ارکان کی نہیں بلکہ ایوان کی پانچ سالہ معیاد کی بات کرتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ میں اسمبلی تحلیل کرنے کا وزیراعظم کا آپشن ختم کر دیا گیا لیکن ہمارے آئین میں وزیراعظم کا اسمبلی تحلیل کرنے کا آپشن موجود ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ رولز سے ماشروط ہے؟ تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد سمیت تمام کارروائی رولز کے مطابق ہوتی ہے، پارلیمانی کارروائی کو مکمل استثنیٰ حاصل ہونے کی دلیل کا حامی نہیں، ایسا نہیں کہ ایوان کے اندر کبھی کچھ بھی دیکھا نہیں جا سکتا اور ایسا بھی نہیں کہ پارلیمان کے اندر مداخلت مسلسل کی جائے، کم ووٹ والے کے وزیراعظم بننے کا اعلان ہو تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے۔