جناب چیف جسٹس عطا عمربندیال نے بروز اتوار، حکومتی اور حزب اختلاف کے مابین تاریخ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی لڑائی کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے عدالتی کارروائی کو دوسرے دن تک ملتوی کردیا، اور عدالت برخاست کردی، اور فرمایا کہ چونکہ آج سب کا روزہ ہوگا، لہٰذا اس کی سماعت اب کل کریں گے بہرحال یہ ان کی صوابدید ہے ،قارئین الحمد للہ مگر بالآخر عید تو ان شاء اللہ آنی ہی آنی ہے، ویسے تو ہمیں بخوبی یاد ہے کہ بروز جمعہ عدالتی فیصلے ہر پندرہ منٹ اورآدھے گھنٹے کا کہہ کر رات گئے بھی سنائے جاتے رہے ہیں، یہ ایک الگ موضوع ہے کہ اس دوران بائیس کروڑ عوام جذباتی ہوکر اور حدود وقیود عدالت عظمیٰ اور دسترس قانون کو اپنی طبع اور طبیعت کے مطابق جُل دے کر قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر تبصرے فرماتے رہے تھے۔
خیر، جہاں تک میرے حسن ظن کا سوال ہے، ہوسکتا ہے کہ محترم چیف جسٹس کواللہ نہ کرے ان کو شوگر یا بلڈپریشر ہو، اور ڈاکٹروں نے انہیں مزیدروزے رکھنے سے منع کردیاہو تاہم اگر ایسی صورت حال کا سامنا، کسی بھی مسلمان کو خدانخواستہ درپیش ہو، تو وہ کسی اور غریب اور مستحق مسلمان کو روزے رکھواسکتا ہے۔ مگر یہاں تو معاملہ کروڑوں، بھوک سے بلکتے، نونہالوں، بچوں اور عمر رسیدہ افراد کا ہے جنہوں نے صرف رمضان المبارک میں بھی نہیں پورا سال صبح کا ناشتہ اور شام کو کھانا، کھانے کا مہنگائی کے حوالے سے اپنا ایک الگ طعام کا شیڈول بنالیا ہوا ہے، کہا یہ جاتا ہے، اور اسلامی روایت ہے کہ اگر نیکی کا خیال آئے، خواہ وہ کتنی چھوٹی ہو، مگر فوراً اس کی تعمیل کردینی چاہیے، جلدی کرنے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ نیکی کے ساتھ ساتھ شیطان لعین نیکی کا سوچنے والے کے دل میں وسوے، اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش شروع کردیتا ہے، ہماری دانست میں اگر محترم چیف جسٹس اس کا فیصلہ فوری کردیتے، خواہ وہ مثبت ہوتا، خواہ منفی، مگر کروڑوں دھڑکتی ہیجانی کیفیت میں اثبات کراکر ثواب حاصل کرلیتے، مگر کیا کیا جائے، راقم کے ایک مقدمے کا فیصلہ بھی حال ہی میں ہوا ہے، جس کو اکیس سال لگ گئے، الحمد للہ مجھے انصاف تو مل گیا، مگر ابھی بھی مخالف پارٹی کو اپیل کا حق حاصل ہے، ویسے بھی ججوں اور وکیلوں کو تاریخوں اور روزنامچوں کی عادت ہوتی ہے، بانی ریاست مدینہ کا فرمان ہے ، کہ انصاف کی محض ایک گھڑی ستر برس کی عبادت سے بہتر ہے، حضرت بایزید بسطامی ؒ کا قول ہے کہ ملک ایک کھیتی ہے، اور عدل اس کا پاسبان نہ ہو، تو کھیتی اجڑ جاتی ہے، صرف انصاف کے موضوع پہ لکھنا شروع کردوں تو وہ ایک کتابی شکل اختیار کرلے گی، ابھی یہ لکھتے لکھتے مجھے ایک خیال آیا کہ واقعی میں انصاف کے موضوع پر کلمہ حق ادا کرتے ہوئے ایک کتاب لکھ ہی دوں، ان شاء اللہ۔
جناب محترم چیف جسٹس صاحب عمر عطا بندیال صاحب ماشاء اللہ ایک ایسے خاندان سے ہیں کہ جو سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے، لہٰذا انہیں کسی قسم کی دنیاوی آلائشوں میں ملوث کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ الگ بات ہے کہ جس ملک میں وہ پیدا ہوئے ہیں، وہاں عوام سے لے کر حکمران تک سب ناقابل اعتبار ہی رہے ہیں، ضمناً ایک بات بلکہ ایک سوال جو مجھ سے پوچھا گیا، وہ یہ ہے کہ دوران سماعت جب وہ اپنے دفتر جارہے تھے، تو پورا میڈیا اُمڈ آیا تھا اور وہ ازراہ کسرنفسی سینے پہ ہاتھ رکھ کر خیر مقدمی کلمات کا شکریہ ادا کررہے تھے، میرے بیٹے نے مجھ سے سوال کیا کہ چیف صاحب نے اس طرح سے کیوں ہاتھ رکھا ہوا تھا، میں نے جواب دیا، کہ انہوں نے بائیں ہاتھ والی جیب پہ ہاتھ رکھا ہوا تھا، شاید اس میں ان کی تنخواہ کے پیسے ہوں گے اور وہ کسی جیب کترے کے ڈرسے ایسا نہ کررہے ہوں، ضروری نہیں جیب کترا کوئی پیشہ ور ہو، آج کل اشرافیہ کے جوان بھی شوقیہ یہ کام اپنائے ہوئے ہیں، کلمہ حق کی لاج رکھتے ہوئے یہ عرض ہے کہ وہ پھر بھی جیب کتروں سے ہوشیار رہیں، یہی دانشمندی ہے اور یہی تقاضائے وقت ہے، حضرت ابوبکر واسطی ؒ کا فرمان ہے کہ دنیا میں جو ہمیں زندگی بسر کرنے کی مدت ہے ایک شخص کی عمر اگر ساٹھ سال ہے تیس سال تو اس کے سونے میں گزرجاتے ہیں، پندرہ سال بچپن کے کھیل کود میں جو باقی وقت بچا، وہ کھانے پینے اور کمانے میں لگ جاتا ہے، حیات ابدی کیلئے ہمارے پاس وقت کتنا بچتا ہے؟ اس لیے ان قیمتی لمحات کو ہرگز ضائع نہیں کرنا چاہیے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے، صرف یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے اسی لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ چیف صاحب صرف یہ متنازعہ مسئلہ ہی نہیں وطن عزیز کے تمام مسائل کا بھی ازخود نوٹس لے کر اپنا نام امر کرجائیں۔
آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جذبات سیاسی پارٹیاں عدالت سے باہر رکھ کر آیا کریں جناب قوم کیا کرے، آپ ہی کی عدالت عظمیٰ کے ایک نیک نام چیف جسٹس تو جذبات کی رو میں بہہ گئے تھے ، میری مراد جناب چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ ہیں، قوم کو بھی میرے طرح معلوم ہے کہ ان کی ذاتی پرخاش جناب شہباز شریف سے تھی، مگر انہوں نے بدلہ ان کے بڑے بھائی محمد نواز شریف سے لیا اور ہم جیسے واقف حال منہ تکتے ہی رہ گئے، یہ تو بالکل ایسے ہی ہے، کہ بچوں کی لڑائی میں ان کے باپ بعض اوقات جذبات میں آکر مارے جاتے ہیں عدلیہ ہی کے ایک محترم اور حسبی نسبی منصف کا شعر آپ کی نذر۔
گمان ہستی یزداں یقین میں موڑ ہی دیں گے
درودیوار کعبہ پر سروں کو پھوڑ ہی دیں گے
امیر شہراب تیرے مظالم بڑھ چلے حد سے !
ہم ان سوئے ہوئے لوگوں کو اب جھنجوڑ ہی دیں گے