کورونا وائرس نے ا س وقت کرہ ارض کو پوری طرح اپنے حصار میں لیا ہوا ہے۔ دنیااس وقت شدید اضطراب میں مبتلا ہے کہ کس طرح اس عالمی وبا کا سامنا کرے۔ بچے ، جوان ہوں یا پھر بوڑھے بلا تفریق سبھی اس کا شکار ہیں۔ دنیا کے بے پنا ہ وسایؑل کے حامل ممالک بھی اس کا سامنا کرتے ہوے بے تحاشہ مسائل کا شکا ر نظر آرہے ہیں۔
گذشتہ سال دسمبر میں کورونا وائرس کا انکشاف تب ہوا جب چینی ڈاکٹر لی کو دوران معائنہ سات مریضوں میں سارس جیسے کورونا وائرس کی علامات نظر آ یؑں۔ یہ ایک انتہائی خطرناک بات تھی۔جو کہ کسی بھی عالمی وبا کا موجب بن سکتی تھی۔ اس بات کا اظہار اس نے سوشل میڈیا اور اپنے ساتھی ڈاکٹروں کے ساتھ کیا تاکہ حفاظتی اقدامات اپنانےیعقینی بناے جا سکیں۔ بدقسمتی سے ڈاکٹر لی کی ایڈوائس کو نظر انداز کر دیا گیا بلکہ اسے چپ رہنے اور افواہوں کوہوا نہ دینے کا مشورہ دیا گیا۔ نتیجہ ڈاکڑ لی بھی اس بیماری کا شکار ہو اا اور جہان فانی سے کوچ کر گیا اور ووہان میں ایمرجنسی نافذ کر دی گی۔مغربی ممالک شروع میں تو اس مغالطے کا شکار رہے کہ شاید وبا چین کے اندرہی دم توڑ دے گی اور باقی ماندہ ممالک اس غلط فہمی کا شکار رہے کہ کہ یہ با ئیولو جیکل لیب وائرس ہے جس کا مقصد چین کو نشانہ بنانا ہے تاکہ چین کی معیشت کو گھٹنو ں کے بل لایا جا سکے۔
یہ غلط فہمی دور ہوتی رہی جب وائرس نے اپنے پنجے یورپ سے لے کر مشرق وسطی تک گاڑ دیے۔ روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں انسانی جانیں دم توڑنے لگیں۔ اسی طرح کی وبا کا سامنا عالم انسانی کو بیسویں صدی کی دوسری دہاٰی میں کرنا پڑاتھا جب سترہ ملین افراد اپنی جان کی بازی ہار گے۔حا لیہ تاریخ میں ماضی قریب میں ایسی کوئی مشا ل نہیں ملتی جس نے عالمی معیشت کا پہیہ صیح معنو ں میں جکڑ لیا ہو۔ درپیش مسائل کا سامنا بروقت اقدامات سے ہی ممکن ہے تاخیر ناقابل تلافی نقصان پہنچاتی ہے۔ وائرس کو چینی یا امریکی سمجھنے کی بجائے اس کے تدارک کے لیے منا سب اقداما ت کیے جاتے تو انسانی جانوں کے نقصان کا احتمال کم سے کم ہوتا۔ باوجود ا س کے کہ محققین2007 میں ہی اس طرح کے وائرس کے حملے کی نشاندہی کر چکے تھے۔ جیسے ہانگ کانگ یونیورسٹی کے مائیکرو بائیولوجسٹ نے اپنے تحقیقی مقالے میں جو کہ امریکن سوسائٹی فار بیالوجی کے جریدے کلینیکل مائیکروبیالوجی رویو میں اکتوبر 2007 میں شائع ہوئی ۔ جس میں باقاعدہ طور پر اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ جنوبی چین کے صوبے ووہان میں جنگلی ممالیہ کے کھانے کےرجحان کے باعث کسی بھی وقت عالمی وبا کے پھوٹنے کا اندیشہ ہے۔جانوروں میں پایا جانے والے وائرس کے انسانو ں میں منتقلی کا عمل کسی بھی وقت شروع ہو سکتا ہے۔ بلکہ اس کو ٹائم بم سے تشبیح دی گئی تھی ۔ جس سے نہ صرف لاکھوں انسان متاثر ہوں گے بلکہ لاکھوں افراد کی موت واقع ہو سکتی ہے۔
آج کے حالات اس بات کی تصدق کر رہے ہیں۔کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد ایک اعشاریہ دو ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ پینسٹھ ہزار سے زیادہ اموات واقع ہو چکی ہیں۔اگر ابتدائی انتباہ کو اہمیت دی جاتی اور عالمی ادارہ صحت متحرک ہوتا تو یقینااّ آج عالمی انسانیت کو تاریخ کے مشکل ترین حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔جس کے باعث آج اپنوں میں اتنے فاصلے بڑھ گئے ہیں کہ والدین بچوں سے اور بچےوالدین سے جدا ہیں۔ اپنے اپنوں سے دور ہیں۔ دل کے جو قریب ہیں وہ کوسوں دور ہیں۔ سمٹتے فاصلے میلوں پر محیط ہیں۔ باہر رہ جا نیوالے اندر اور اندر والے باہر نہیں جا سکتے۔ ستم تو یہ ہے کہ بیماری میں مبتلا شخص اپنی جنگ خود لڑے گا۔ خدانخواستہ اگر سفر آخر ت کا آغاز ہو گیا تو سفر اکیلے ہی طے کرنا ہوگا نہ کوئی اپنا ساتھ ہو گا اور نہ کو ی بیگانہ ۔
سائنسی اعتبار سے تو یہ بات درست ہے کہ تمام اعشاریوں کو سائنسی پیمانے پر تولے بغیر کسی بھی طرح کا نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں ہوتا۔ لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کے سامنے شاید سائنس بھی بے بس نظر آتی ہے۔ ایسے میں مد د صرف قادر مطلق سے ہی توقع کی جا سکتی ہے۔ تمام وسائل بروئے کا ر لانے کے باوجود کامیابی حاصل نہ ہو تو سر بسجود اسی کے حضور حاضر ہونا پڑھتاہے۔ اس کے مناظر اٹلی سے لے کر سپین تک بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں۔ جب لوگ بلا تفریق و مذہب اکھٹے اسی کی چوکھٹ کا سہارا مانگ رہے تھے۔ ہر لمحہ گزرتے حالات ہمیں غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں ۔ بلکہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پرانی قومیں کیسے تباہ ہوٰئیں اور ان پر اللہّ کا عذاب کیسے نازل ہوا ہوگا۔ جب کڑک دار آواز نےعاد اورثمود کی قوم کو آ لیا۔ پانی نے نوح کی قوم کو غرق کر دیا۔ اللہّ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز قہر الہیٰ کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
آج کے حالات کا موازنہ کیا اس وقت کے حالات سے کیا جا سکتا ہے؟جس میں ایک انسان کو دوسرے انسان کے برابر کے حقوْق حاصل نہیں۔ اگر مغربی معاشرے کی مثال لے لیں تو انہوں نےاپنے ہاں انسانوں سے لے کر جانوروں تک سب کے حقوْق مقرر کر رکھے ہیں۔جن کی پامالی کی پاداش میں کسی کوبھی جیل کی سلاخوں کی ہوا کھانی پڑ سکتی ہے۔ اسے تاریخ کا جبر کہیں یا پھر مہذب معا شرے کی دو رخی ۔ مسلمانان عالم اسلام ہوں یا پھر مغربی معاشرے کے تہذیب یافتہ لوگ سبھی اس جر م میں برابر کے شریک ہیں ۔ جب شام میں شام غریباں برپا تھی ۔ ہر گھر پر بمباری ہو رہی تھی۔لاکھوں افراد قتل کر دیے گئے۔ کئی لاکھ خواتین بیوہ ہو گئیں۔ لاکھوں بچے یتیم کر دیے گئے ۔ لاکھوں خواتین کی عصمت دری کی گئی ۔اک ھو کا عالم تھا کہیں سے کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔تب ایک شامی بچے نے کہا تھا کہ میں اللہّ میاں سے جا کر شکایت کرو ں گا۔ کہ جب ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے ۔ جب کالی آندھی کا راج تھا ۔ جب حوا کی بیٹی ظلم کی چکی میں پس رہی تھی تب نیرو چین کی بانسری بجا رہا تھا ۔
کشمیر سے لے کر فلسطین تک انسان انسانو ں کی قید میں ہیں ۔ انسانوں کو انسانو ں کے نہیں تو کم از کم جانوروں کے برابر تو حقو ق دے دیے جائیں۔
ا نہیں زندہ رہنے کا حق تو دیا جائے۔ چپ کا روزہ توڑا جائے اس سے پہلے کہ توبہ کا دروازہ بند ہو جائے۔
محمد شفیق چوہدری ۔ @ShafiqsiddiqchFor feedback twitter
(ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)