مسلۂ کشمیر تقسیم ہند کے برطانوی قانون کا ایک نامکمل ایجنڈا ہے سردار مسعود خان

02:55 PM, 7 Apr, 2017

نیوویب ڈیسک

مظفرآباد: صدر آزاد جموں و کشمیر سردار مسعود خان نے برطانوی پارلیمانی وفد کے ارکان کاآزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد آمد پر خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکمران کنزرویٹو پارٹی کے ارکان کا ایم پی رہنما رحمن چشتی کی قیادت میں یہاں آنا انتہائی اہم قدم ہے۔ میں اس حوالے سے برطانوی وزیراعظم ٹریسامے اور سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس دورے کو ممکن بنایا۔

آزاد کشمیر کا برطانیہ کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ اس وقت تقریبا 13 لاکھ کشمیری برطانیہ میں مقیم ہیں۔ جو اپنے نئے وطن کی ترقی اور خوشحالی کیلئے نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ کو دنیا بھر کی پارلیمانوں کی ماں کا درجہ حاصل ہے۔ مسلۂ کشمیر تقسیم ہند کے برطانوی قانون کا ایک نامکمل ایجنڈا ہے۔ اس حصے کے کشمیری خدا کے کرم سے آزاد ہیں لیکن کنٹرول لائن کے اس پار آباد کشمیریوں پر غیر ملکی قابض فوج نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ قابض بھارتی فوجی ان کی اپنی زمین اور گھروں میں آ کر انہیں قتل کرتے ہیں۔ تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور معذور کر دیاجاتا ہے۔ ان درندہ صفت فوجیوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ اورآرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت کشمیریوں کی نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کی مکمل چھوٹ اور استثنیٰ حاصل ہے۔ گزشتہ 8 ماہ کے دوران وہاں کے لوگوں پر قیامت ٹوٹی ہے۔ پیلٹ گن جیسے مہلک ہتھیار کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ ایک سو کے قریب نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دونوں آنکھوں سے محروم ہو چکے، ایک ہزار سے زیادہ کی آنکھیں جزوی طور پر بصارت کھو چکی ہیں۔ پیلٹ گن کے زخموں سے 20 ہزار افراد چورچورہیںاور ڈیڑھ سوافراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ بھارت نے پوری وادی کو عقوبت خانے میں بدل دیا ہے۔ کسی غیر ملکی تنظیم، رضا کار یا انسانی حقوق کے علمبردار کو وہاں جانے کی اجازت نہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق زید رعد الحسین نے گزشتہ سال ستمبر میں ایک تحقیقاتی کمیشن آزاد اور مقبوضہ کشمیر بھیجنے کی پیشکش کی۔ جس کا پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں نے خیر مقدم کیا۔ لیکن بھارتی حکومت نے پیشکش مسترد کر دی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے صدارتی سیکرٹریٹ مظفرآباد میں برطانوی پارلیمانی وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وفد میں مسٹر رحمن چشتی ایم پی، مسٹر نائیجل ہیڈلسن، مسٹر مارک پائوسی، مسٹر ہنری سمتھ، مسٹر میتھیو آفورڈ، اور مسٹر رائے سئن سمتھ شامل تھے۔

صدر آزاد کشمیر نے کہا کے مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک سیاسی اور پرامن ہے۔ مسلۂ کشمیر پیچیدہ ضرور ہے لیکن اس کا کوئی منصفانہ حل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں ہو رہی۔ پاک بھارت دو طرفہ مذاکرات بے سود ثابت ہوئے ہیں۔ عالمی طاقتیں اور دیگر ممالک کا ردعمل محتاط ہے اور تجارتی اور معاشی مفادات کے تابع نظر آتاہے۔ جس کی وجہ سے صورتحال کشمیریوں کیلئے پریشان کن ہے۔ برطانوی پارلیمانی وفد کے ارکان آزاد کشمیر میں جس مقام پر جاناچاہیں انہیں مکمل رسائی حاصل ہو گی۔ پارلیمانی وفد بھارت کے ساتھ بھی معاملہ اٹھائے اور مقبوضہ کشمیر کا بھی دورہ کر کے لوگوں سے مل کر معلومات حاصل کرے۔ صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ مسلۂ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں مؤثر اور قابل عمل ہیں۔ ان پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ برطانیہ اقوام متحدہ کے بانیوں میں شامل ہے۔ اس لیے اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے کہ کشمیر کے شہریوں کو بھی حق خودارادیت کا جمہوری حق دلائے۔ صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ یہ ڈھکوسلہ گھڑا ہے کہ کشمیر دو طرفہ مسلۂ ہے۔ ہم اس مؤقف کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ دو نہیں سہہ فریقی مسلہ ٔہے جس میں کشمیری بنیادی فریق ہیں۔ صدر آزادکشمیر نے کہا کہ بھارت تحقیقاتی مشن کو مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت نہیں دے رہا تو اس کا واحد حل یہ ہے کہ غیر جانبدار بین الاقوامی تنظیموں، اداروں اور آزاد میڈیا کی رپورٹس موجود ہیں۔ جن میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے متعلق خاطر خواہ مواد اور معلومات موجود ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ کشمیر دہشتگرد نہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی تحریک پرامن اور جمہوری ہے۔ بھارت اسے دہشتگردی سے جوڑ کر حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ حالانکہ بھارتی سکیورٹی حکام نے اپنے ہی میڈیا کو بتایا کہ مقبوضہ ریاست میں کل تین چار سو عسکریت پسند ہیں جن کا مقابلہ کرنے کیلئے جدید ترین اسلحہ سے لیس 7 لاکھ بھارتی فوج وہاں موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری گزشتہ 70 سال سے آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ آزاد کشمیر میں جمہوری حکومت ہے۔ یہاں مکمل حکومتی ڈھانچہ موجود ہے لیکن یہ کوئی خودمختار ریاست نہیں۔ ہم نے اس وعدے کے تحت یہ سیٹ اپ قائم کیا کہ پوری ریاست کے عوام ایک ساتھ استصواب رائے کا حق استعمال کر کے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ اس موقع پر وفد کے سربراہ مسٹر رحمن چشتی نے آزاد کشمیر میں ان کے وفد کے دورے کا اہتمام کرنے اور مظفرآباد تک آزادانہ رسائی دینے پر حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم جمہوری ملک کے شہری ہیں۔ اس لئے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کرتے ہیں۔ برطانوے وزیراعظم ٹریسا مے نے کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ اور اس کی منظور کردہ قراردادوں کا بھی احترام کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کوآزاد کشمیر اور مقبوہ کشمیر میں تحقیقاتی مشن بھیجنا چاہیے جو دونوں خطوں کا دورہ کر کے حقائق معلوم کرے اور رپورٹ شائع کرے جسے تمام فریقین تسلیم کریں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کو غیر فوجی علاقہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اس دیرینہ مسلۓ کے حل کیلئے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں مسلۂ کشمیر پر جامع بحث ہوئی ہے۔ ہم نہتے مظاہرین کے خلاف پیلٹ گن کے استعمال کی مذمت کرتے ہیں۔ ہمیں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش ہے۔ وفدکے دیگر ارکان نے کہا کہ ہم پیلٹ گن سے بصارت سے محروم ہونے والے نوجوانوں کو زندگی بھرکے مسائل کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ مسلۂ کشمیر کے باعث کشمیری عوام کی زندگیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ انہوں نے آزا دکشمیر کے قدرتی حسن کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہاں لوگوں سے مل کر ہمیں حالات معلوم کرنے میں مدد ملی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تحقیقاتی مشن بھیجنے کی ضرورت ہے۔ ہم لندن پہنچ کر بھارتی حکام سے بھی مقبوضہ کشمیر کیلئے رسائی طلب کریں گے۔ اگر جانے کی اجازت نہ ملی تو ہم اپنی رپورٹ شائع کر دیں گے اور دنیا کو بتائیں گے کہ کون غلط اور کون صحیح ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے مظفرآباد میں مہاجر کیمپ کا دورہ کیا۔ وہاں خواتین اور بچوں سے ملکر ان پر ہونے والے مظالم کی داستانیں سنی ہیں۔

مزیدخبریں