6ستمبر یوم دفاع پر لکھنے کے لیے تو بہت کچھ ہے مگرسب سے پہلے نظر سے گزری سیلاب زدگان کی ایک ویڈیو ملاحظہ فرمائیں جس نے مجھے رلا دیا۔یہ مناظر ضلع راجن پور کے ایک شہر فاضل پور کے تھے دھنسے ہوئے ایک خاندان تک جب ریسکیو اہلکار پہنچے تو دیکھا کہ پانی میں ڈوبی ہوئی چارپائی پر ایک کمزور سی عورت ایک بیٹے کے ساتھ خون میں لت پت پڑی ہوئی تھی۔ ریسکیو اہلکاروں نے قریب جا کر دیکھا تو پتا چلا کہ وہ عورت ایک مردہ بچے کو جنم دینے کے بعد خود بھی موت کے منہ میں جا چکی ہے۔ چارپائی کے پاس بیٹھی روتی ہوئی دو بچیاں ابھی زندہ تھیں، ان سب کو کشتی میں ڈال کر کنارے کی جانب بڑھے جیسے ہی کشتی کنارے پہنچی تو ایک مفلوک الحال اور پھٹے ہوئے کپڑوں میں ملبوس شخص بھاگ کر کشتی کی جانب بڑھا اور جیسے ہی اس کی نظر کشتی پر اپنی بچیوں پر پڑی تو چیخیں مارتا ہوا ان سے لپٹ گیااور جب اْس نے نومولود بچے کو جنم دینے والی اپنی بیوی کو دیکھا تو جلدی سے اس کی جانب بڑھا لیکن پھر اپنی بیوی اور نو مولود بیٹے کو مردہ حالت میں دیکھ کر اسے اسی وقت دل کا ایسا جان لیوا دورہ پڑا وہ خود بھی موت کی وادی میں جا پہنچا۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت وہاں موجود ریسکیو ٹیم اور ہماری کیا حالت ہوئی ہوگی۔ اور وہ دو بچیاں جن کا اس وقت دنیا میں کوئی بھی وارث نہیں،کن حالات اور تکالیف کا سامنا کریں گی؟ بقول شاعر کہ
ابھی ضمیر میں تھوڑی سی جان باقی ہے
ابھی ہمارا کوئی امتحان باقی ہے
آج 6ستمبر ہے، یہ خوش آئند بات ہے کہ حکومت،پاک فوج اور دیگر اداروں نے 6ستمبر کے حوالے سے تمام تقریبات ملتوی کرکے اپنی خدمات کو سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے وقف کر دیا ہے۔ یقین مانیں دل اب بھی وہیں پر اٹکا ہوا ہے کہ ہمارے ملک کے تین کروڑ باشندے کس طرح اور کس حال میں ہوں گے؟ یقینا ان کی بحالی کے لیے پورا پاکستان اپنے تئیں کام کر رہا ہے اور یہی جذبہ ہونا بھی چاہیے کیوں کہ 6ستمبر کا پیغام بھی یہی ہے کہ ہم دنیا کو دکھا دیں کہ ہم اپنے لوگوں پر مصیبت آنے پر کس طرح اْن کی خدمت میں ایک ہو جاتے ہیں۔
اگر ہم یوم دفاع کی گہرائی میں جائیں تو یہ وہ مصیبت تھی جس سے پاکستان سرخرو ہوا۔ اور اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کے حملے کو پاکستان کی افواج نے جس پامردی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے ساتھ
روکا اور ناکام بنایا یہ دفاعی امور کے ماہرین کے لیے آج بھی باعثِ حیرت ہے۔ حملہ کرنے والے فریق کو دفاع کرنے والوں پر ایک سبقت حاصل ہوتی ہے کہ وہ حملے کی منصوبہ بندی کے ساتھ ممکنہ دفاعی اقدامات کے توڑ کی منصوبہ بندی بھی کرکے آتا ہے‘ مگر جنگ ِستمبر 1965ء میں پاکستان کی افواج نے دشمن کی تمام منصوبہ بندی اور حکمت عملی کو جس طرح خاک میں ملایا‘ وہ ایک الگ داستان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسی جنگ میں یہ طے ہو گیا تھا کہ بھارت اپنے ڈیل ڈول اور طاقت سے پاکستان کو کبھی مرعوب نہ کر سکے گا۔ اگر پاکستان بھارت کے مقابل پوری قوت سے ڈٹا ہوا ہے تو اس استقامت اوریقین محکم میں بہت بڑا حصہ اْس دن کا بھی ہے جسے آج ہم”یوم دفاع“ کے عنوان سے مناتے ہیں۔ان شہیدوں اور غازیوں کے جذبہ ایمانی اور فرض شناسی نے پاکستان کے دفاع کووہ صلاحیتیں بخش دی ہیں جو دنیا کے کسی بھی جدید اسلحے سے کہیں زیادہ موثر اور طاقتور ہیں۔ جنگ ستمبر کا یہ بھی ایک امتیازہے کہ اس معرکے میں پاکستان کے عوام اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے؛ چنانچہ اس ہنگامے میں افواجِ پاکستان کے استقلال اور استحکام میں عوام کی جانب سے دیے گئے اس پیار اور اعتماد کا بھی بھرپور ساتھ تھا۔ پاکستان کے عوام کی جانب سے اپنی مملکت کے دفاع کے ذمہ داروں کے لیے احترام‘ اعتماداور محبت کا یہ جذبہ بدستور موجود ہے اور اس قوم کے لیے یہ باعث ِفخر ہے کہ قومی دفاع کے معاملے میں وہ آج بھی اسی جذبے سے سرشار ہے۔ وقت کے ساتھ اگرچہ دفاعی سائنسز اور صلاحیتوں میں کافی پیش رفت ہوچکی ہے اور پاکستان اپنے دفاع کی ہر ضرورت کو یقینی طور پر پورا کرتا ہے اور اس شعبے میں بھی دشمن کو پاکستانی وژن اور صلاحیت کا اچھی طرح اندازہ ہے؛ تاہم قومی غیر ت و حمیت کا جذبہ اور شوقِ شہادت پاکستان کے دفاع میں آج بھی سب سے مضبوط دیوار ہے۔
پاکستان کی نسلِ نو کوجنگ ستمبر کے حالات و واقعات بتانے کی ضرورت ہے، تاکہ نوجوانوں کا اپنے قومی دفاعی صلاحیتوں پر اعتماد مضبوط ہو‘ اس ضمن میں یہ بتانے کی ضرورت بھی ہے کہ ایک معرکہ تو پاکستان کی جرّی افواج نے جنگی محاذوں پر لڑا جبکہ دوسرا معرکہ پاکستان کے عوام کی جانب سے سماج کے اندر لڑا گیا۔تاکہ ہمارا نوجوان پختگی کے ساتھ اس ملک کے لیے اپنی جان بھی قربان کرنے سے دریغ نہ کرے۔ اور جب بھی اس ملک کو سیلاب جیسی آفتوں کا سامنا ہوتو یہی نوجوان ان پانیوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہوجائے۔
لہٰذا6ستمبر صرف سرحدوں کی حفاظت کا دن نہیں بلکہ اندرونی حالات کو ٹھیک کرنے کا دن بھی ہونا چاہیے، ان پانیوں کے آگے بندھ باندھنے کا دن ہونا چاہیے، ڈیم بنا کر اپنے ملک کو پختہ کرنے کا دن ہونا چاہیے۔ اس دن یقینا ہمیں قومی سطح پر ان مسائل پر کھل کر گفتگو کرنی چاہیے اور اختلافات کے یقینی خاتمے اور سماجی ہم آہنگی کے فروغ کیلئے صلاحیتیں اور توانائیاں صرف کرنی چاہئیں۔ لوگوں میں پائے جانے والے سیاسی‘ طبقاتی یا دیگر نوعیت کے اختلاف سے نمٹنے کے اسباب پیدا کرنے چاہئیں۔ یقین رکھنا چاہیے کہ ہمارا قومی اتحاد ہمارے قومی دفاع کی کلید ہے؛ چنانچہ ہمارے ملک کو جب بھی ہماری ضرورت ہوئی ہم اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی نہیں گھبرائیں گے!مگر اْس کے لیے ہمت جذبہ اور ایثار کی سخت ضرورت ہے جو ہم میں شاید ایک سازش کے تحت کم کر دیا گیا ہے۔