گزشتہ سے پیوستہ
ستمبر 1965 کی 17 روزہ جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج کی دلیری، بہادری، شجاعت اور جنگی و پیشہ ورانہ مہارت اور عدیم المثال قربانیوں کے واقعات اتنے پھیلے ہوئے ہیں کہ ان کا تذکرہ یہاں سمیٹنا آسان نہیں ہے۔ تاہم کچھ چیدہ چیدہ واقعات کے ذکر کے بغیر جنگ ستمبر کا احوال مکمل نہیں ہو سکتا۔ یہاں یہ حقیقت بھی سامنے رہنی چاہیے کہ 1965 میں پاکستان کی مسلح افواج اپنی نفری، اسلحے، جنگی ساز و سامان اور فوجی تنصیبات کے حوالے سے بھارت کی مسلح افواج کے مقابلے میں ایک تہائی سے بھی کم تھی۔ خیر ہم مسلح افواج کی بہادری، شجاعت، جنگی مہارت اور لازوال قربانیوں کی طرف آتے ہیں۔ لاہور میں برکی کے محاذ پر میجر عزیز بھٹی شہید کی داستان ِشجاعت کو کون بھلا سکے گا اپنی کمپنی کی مختصر نفری کے ساتھ وہ دشمن کی اپنے سے کئی گنا بڑی تعداد کے مقابلے میں کئی دنوں تک سینہ سپر رہے اور دشمن کی پوزیشنوں پر اپنی توپوں کی ایسی صحیح نشانوں پر گو لہ باری کراتے رہے کہ دشمن بوکھلا اٹھا بالآخر وہ دشمن کی توپ کا نشانہ بنتے ہوئے شہادت سے ہمکنار ہوئے اور نشان حیدر کا اعلیٰ اعزاز حاصل کیا۔ سیالکوٹ کے محاذ پر دُشمن اپنے فرسٹ آرمڈ ڈویژن ”فخرِ ہند“ کی ٹینک رجمنٹوں کی پوری قوت کے ساتھ اس اُمید پر حملہ آور ہوا تھا کہ وہ گوجرانوالہ تک ہر چیز کو روندتا ہوا لاہور کے عقب میں جی ٹی روڈ پر جا پہنچے گا لیکن ہمارے ایک انفنٹری بریگیڈ نے تین دن تک فخرِ ہند کی ٹینک رجمنٹوں کو چونڈہ ریلوے سٹیشن کے اس طرف آگے نہ بڑھنے دیا اور یہ مشہور ہوا تھا کہ ہمارے جانباز سینوں پر بم باندھ کر دُشمن کے ٹینکوں کے سامنے لیٹتے رہے اس دوران ہماری ٹینک رجمنٹیں دُشمن کے مقابلے میں پہنچ گئیں اور چونڈہ کا میدان دُشمن کے ”فخر ہند“ ڈویژن کے شرمن ٹینکوں کا قبرستان بن گیا اور اُس کا آگے بڑھنے کا منصوبہ ایک ڈراؤنے خواب کا روپ دھار گیا۔ قصور سیکٹر میں ہمارے بکتر بند دستے بھارتی سرحد کے اندر کھیم کرن کے قصبے تک جا پہنچے تو دُشمن نے مادھوپور نہر کا پشتہ توڑ دیا جس کی وجہ سے ہمارے ٹینکوں کی پیش قدمی رُک گئی ورنہ فیروز پور تک کا بھارتی علاقہ فتح کرنے سے ہمیں کوئی روک نہیں سکتا تھا۔ راجستھان کے محاذ پر بھی ہماری پیش قدمی جاری رہی اور کھوکھرا پار کے مونا باؤ ریلوے سٹیشن تک کئی ہزار مربع میل کا بھارتی علاقہ ہمارے قبضے میں آ گیا۔
ستمبر 1965 کی جنگ میں ہماری فضائیہ اور بحریہ کی کارکردگی بھی ہر لحاظ سے قابلِ فخر رہی بھارتی فضائیہ کے نٹ، مسٹئیر، ہنڑ لڑاکا اور کینبرا بمبار طیارے شروع کے ایک دو دن پاکستان کی فضاؤں میں بڑھ چڑھ کر حملہ آور ہوئے لیکن 7 ستمبر کی صبح سرگودھا کے ہوائی اڈے پر حملہ آور بھارتی طیاروں کو سکوارڈن لیڈر ایم ایم عالم نے اپنے سیبر طیارے کی مشین گنوں کا نشانہ بنایا اور چند سیکنڈ کے وقفے میں پانچ بھارتی حملہ آور طیاروں کو مار گرایا تو پھر بھارتی طیاروں کو دن کی روشنی میں پاکستانی اڈوں کا رُخ کرنے کی جرأت نہ ہو سکی۔ بھارتی فضائیہ کے اہم مراکز پٹھان کوٹ، انبالہ، جام نگر، آدم پور اور ہلواڑہ ہمارے F-86 سیبر، F-104 سٹار فائٹر اور B-57 بمبار طیاروں کا خاص طور پر نشانہ تھے اور ریڈیو پاکستان کے سینئر نیوز ریڈر شکیل احمد جن کا خبریں پڑھنے کا ایک خاص انداز تھا اپنے مخصوص لہجے اور بلند آواز میں خبروں میں جب بتاتے کہ ہمارے شاہینوں نے دُشمن کے ہوائی اڈوں ہلواڑہ، آدم پور اور جام نگر پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگائے ہیں تو ریڈیو کے گرد بیٹھے خبریں سننے والوں کی زبانوں پر بے ساختہ اللہ اکبر کے نعرے بلند ہو جایا کرتے تھے۔ جنگ ستمبر کے دوران دشمن کے سو سے زیادہ طیارے تباہ ہوئے جبکہ ہمارا نقصان اس کے مقابلے میں پانچویں حصے سے بھی کم تھا۔
بھارتی بحریہ اگرچہ ہماری بحریہ کے مقابلے میں کئی گنا بڑی تھی لیکن پوری جنگِ ستمبر کے دوران اُس کے تباہ کن لڑاکا بحری جہاز ہماری واحد آبدوز ”غازی“ کے ڈر سے اپنی گودیوں میں دبکے رہے اور گجرات کاٹھیاواڑ کے ساحل پر قدیم سومنات کے مندر کے قریب واقع بھارتی بحری اڈہ ”دوارکا“ ہماری بحریہ کا نشانہ بنا اور اُس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ جنگ ِ ستمبر کے یہ چیدہ چیدہ حالات و واقعات ایسے ہیں جن پر ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں بھارت کی طرف سے اگرچہ اپنی کامیابیوں کے دعوے کیے جاتے رہے ہیں اور شاید اُسے کچھ کامیابی حاصل بھی ہوئی ہو لیکن اس کی سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ اُس نے پاکستان کو شکست دینے یا تاراج کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا وہ بُری طرح ناکام ہوا۔ ہم بجا طور پر یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہمیں بھارت کے مقابلے میں اگر کوئی بڑی فتح حاصل نہیں ہوئی تھی تو ہمیں کسی ناکامی کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ پاکستان اور پاکستان کی مسلح افواج نے انتہائی کم وسائل اور کم تعداد میں ہو نے کے باوجود دُشمن کو پسپائی پر مجبور کیا تھا۔۔۔ افواجِ پاکستان زندہ باد!