راولپنڈی : آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے اٹلی کے وزیر خارجہ نے ملاقات کی ہے ۔ملاقات میں اہم امور پر گفتگو ہوئی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق ملاقات میں باہمی دلچسپی، علاقائی سیکورٹی اور افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔
آرمی چیف نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان اٹلی کے ساتھ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اٹلی سے مختلف شعبوں میں باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں۔
اٹلی کے وزیرخارجہ نے افغانستان بالخصوص انخلاء کے عمل میں پاکستان کے کردار کو سراہا۔
قبل ازیں دفتر خارجہ میں پاکستان اور اٹلی کے درمیان وفود کی سطح پر مذاکرات ہوئے،دونوں ملکوں نےپارلیمانی روابط کے فروغ، دو طرفہ تعلقات کے استحکام اور باہمی دلچسپی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کیلئے مشترکہ کوششیں بروئے کار لانے پر اتفاق کیا۔
پاکستانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی جبکہ اطالوی وفد کی قیادت اٹلی کے انکے ہم منصب لیوگی دے مایو کر رہے تھے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کرونا وبا کے دوران اٹلی میں قیمتی جانوں کے نقصان پر اطالوی ہم منصب کے ساتھ اظہار تعزیت کیا اور کہا کہ جس طرح اٹلی نے کرونا وبا کے پھیلائو کو روکنے کیلئے موثر اقدامات کئے وہ قابل تحسین ہیں جبکہ ہمیں پاکستان میں، محدود وسائل کے باوجود، سمارٹ لاک ڈائون کے ذریعے اس وبا پر قابو پانے اور اس کے پھیلائو کو روکنے میں کافی مدد ملی۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان ،اٹلی کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے۔یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی سطح پر پاکستان اور اٹلی کے درمیان مربوط اشتراک، مستحکم تعلقات کا مظہر ہے،اہم علاقائی و عالمی امور پر پاکستان اور اٹلی کے نقطہ نظر میں مماثلت حوصلہ افزا ہے۔
وزیر خارجہ نے، جی ایس پی پلس اسٹیٹس اور فیٹف کے حوالے سے، اٹلی کی جانب سے پاکستان کی حمایت پر اطالوی وزیر خارجہ کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان یورپی یونین کے بہت سے ممالک کے سربراہان مملکت کے ساتھ افغانستان کی صورتحال پر رابطے میں ہیں۔مجھے یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزف بوریل سمیت کئی یورپی وزرائے خارجہ کے ساتھ افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ ءخیال کا موقع مل چکا ہے۔
وزیر خارجہ نے اٹلی کی جی 20 کی صدارت سنبھالنے پر،اطالوی وزیر خارجہ کو مبارکباد دی اور کہا کہ جی 20 کی طرف سے افغانستان کی صورتحال پر کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ خوش آئند ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان، ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے گذشتہ چار دہائیوں سے افغانستان میں جاری خانہ جنگی اور بدامنی کے مضمرات کا سامنا کرتا آ رہا ہے،افغانستان میں اگست کے وسط میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے سب کو ورطہ ء حیرت میں ڈال دیا۔افغانستان کے حوالے سے لگائے گئے تمام اندازے اور پشین گوئیاں غلط ثابت ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں اہم بات جنگ کے خاتمے سے افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کی امید کا پیدا ہونا ہے،طالبان قیادت کی جانب سے جنگ کے خاتمے، عام معافی، افغانوں کے حقوق کے تحفظ، اور افغان سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال نہ کرنے کے حوالے سے سامنے آنے والے بیانات، حوصلہ افزاءہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان، افغان شہریوں کی جان و مال اور حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ، افغانستان میں اجتماعیت کی حامل حکومت کا متمنی ہے،افغانستان کے لوگ گذشتہ چالیس سالوں سے جنگ و جدل کا سامنا کرتے آئے ہیں۔ افغانستان میں بدلتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں عالمی برادری پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ افغانوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کریں ۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عالمی برادری کو افغانستان میں امن کی بحالی اور انسانی بنیادوں پر افغانوں کی مالی معاونت کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ افغانستان میں خانہ جنگی، مہاجرین کی یلغار جیسے خطرات پیدا نہ ہوں،ہمیں اس موقع پر امن مخالف عناصر(اسپائیلرز) پر بھی کڑی نظر رکھنا ہوگی جو افغانستان میں قیام امن کی کاوشوں کو سبوتاژ کرنے کیلئے متحرک ہیں۔
وزیر خارجہ نے اطالوی ہم منصب کو اپنے حالیہ چار ملکی دورے کے حوالے سے کہا کہ میں نے تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور ایران کی قیادت کے ساتھ، افغانستان کی صورتحال کے تناظر میں درپیش چیلنجز اور علاقائی سطح پر متفقہ لائحہ عمل کی تشکیل کیلئے مشاورت کی اور انہیں پاکستان کے نقطہ نظر سے آگاہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کا فائدہ پورے خطے کو یکساں طور پر ہو گا،پاکستان نے مختلف ممالک کے 12000 شہریوں کو کابل سے انخلا میں معاونت فراہم کی اور پاکستان، انخلاء کے عمل میں مدد کا سلسلہ جاری رکھنے کیلئے پر عزم ہے۔اطالوی وزیر خارجہ نے افغانستان سے انخلاکے عمل میں اطالوی شہریوں کی معاونت پر پاکستانی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔