میں 6 ستمبر 1965ء کو کراچی میں تھا۔ یونیورسٹی جاتے ہوئے صدر کے علاقے سے گزرا تو عجیب مناظر نظر سے گزرے۔ ریگل چوک پر چاروں طرف بجلی کے کھمبوں پر لاؤڈ اسپیکر لگے تھے اور ان سے ایک ہی قومی ترانہ بار بار بجایا جا رہا تھا۔ ”جنگ کھیڈ نہیں ہوندی زنانیاں دی“ چوک میں عوام کا اژدھام تھا جو نعرہ تکبیر اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا۔ ایک صاحب نے پوچھا زنانیاں کیا چیز ہے۔ میں نے کہا خواتین وہ جیسے پورے مصرع کا مطلب سمجھ گیا۔ ہنسا اور نعرے لگانے والوں میں یہ کہتا ہوا شریک ہوگیا کہ بھارت نے ہمارے پاک وطن پر حملہ کیا ہے تو زنانیوں کی اس بھارتی سینا کو ہمارے بہادر سپاہی نیست و نابود کردیں گے۔ اس سے پہلے میں جنرل ایوب خان کی وہ تاریخی اور جذبوں سے بھری تقریر سن چکا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ دشمن نہیں جانتا اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔ میرے بہادرو لا الہٰ الا اللہ پڑھتے ہوئے دشمن پر پل پڑو۔ اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو۔ راستے میں بندر روڈ پر فوجی بھرتیوں کے لیے لمبی قطاریں لگی تھیں ہر شخص اس آرزو کے ساتھ قطار میں کھڑا تھا کہ اسے بھی بھرتی کر کے محاذ جنگ پر بھیجا جائے وطن پاک کے دفاع کے لیے میں نے جو جوش و جذبہ اور ولولہ ان دنوں دیکھا وہ فقید المثال تھا مجھے وہ جذبہ گزرتے ماہ و سال میں پھر کبھی نظر نہ آیا، جنگ ستمبر کے 17 دنوں کے دوران عجیب مناظر دیکھنے کو ملے، رات 8 بجے ریڈیو پاکستان پر خبروں کے لیے پان کے کھوکھوں اور دکانوں کے سامنے جمگھٹا اپنے دلیر مجاہدوں اور غازیوں کے کارناموں پر مشتمل خبریں سنتا تو ارد گرد کا علاقہ نعرہ تکبیر سے گونج اٹھتا۔لوگ بڑے شوق سے ایک نغمہ سنتے تھے”پاکیستانی بڑے لڑیا ون کی سہی نہ جائے مار“ فریئر مارکیٹ کے موڑ پر نوجوانوں جن میں تاجروں کی اکثریت تھی نے ایک بڑا سا بلیک بورڈ لگا رکھا تھا جس پر ایک نوجوان چاک سے تباہ کیے جانے والے بھارتی طیاروں کی تعداد لکھتا اور پاکستان زندہ باد پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگاتا۔ عجیب دن تھے۔ کراچی سمیت پورا پاکستان جا گ رہا تھا۔ ہمارے عظیم مجاہد وطن پاک کے دفاع کے لیے اپنے مورچوں میں چوکس رہتے ہمارے شہیدوں نے ہمارے مستقبل کے لیے اپنا آپ قربان کردیا۔ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بنے ہوئے اس وطن کی بنیادوں میں ہمارے شہدا کا پاک لہو شامل ہے، میں نے 6 ستمبر کو اپنی پہلی جذبوں سے بھری طویل نظم لکھی۔ ”میرے وطن کے سپاہی تجھے سلام میرا“ زندگی کے پچاس
سال گزارنے کے بعد چند سال قبل اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ واہگہ بارڈر پرچم کی تبدیلی کی تقریب دیکھنے گئے تو بی آر بی نہر کی شور مچاتی لہروں میں ان شہیدوں کی تصویریں دکھائی دیں جنہوں نے ان بزدل دشمنوں کا بے جگری سے مقابلہ کیا جنہوں نے رات کے اندھیرے میں لاہور پر حملہ کیا تھا اور اس ناپاک آرزو کے ساتھ فوج کشی کی تھی کہ وہ لاہور کو فتح کر کے جمخانہ میں شراب کے جام لنڈھائیں گے مگر ہمارے مجاہدوں، غازیوں اور شہیدوں نے ان کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دیے، میں نے نہر کے کنارے وہ مورچے دیکھے جن میں اللہ کے شیروں نے اپنے وطن کا انتہائی بہادری اور جرأت سے دفاع کیا تھا۔ تاریخی پل کے کنارے بنے ہوئے ایک چھوٹے سے مورچے کی چھت پر میں نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ دو رکعت نفل ادا کیے اور اپنے وطن کے مجاہدوں اور شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا۔ قرآنی حکم شہیدوں کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں۔ میں نے اپنے شہیدوں کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی۔ قریب کھڑے ایک نوجوان سے جنگ ستمبر کے بارے میں پوچھا اس نے لا علمی کا اظہار کیا اسی اثناء میں ایک سفید داڑھی والا بزرگ بیل گاڑی پر پل سے گزر رہا تھا میں نے اسے روکا اور پوچھا بابا جی جنگ ستمبر یاد ہے اس کی آنکھوں کی چمک لوٹ آئی۔ کیوں نئیں جی سب کچھ یاد اے۔ میں نے پوچھا کیا ہوا تھا اس نے بتایا کہ ہم اسی علاقہ میں رہتے تھے فوج نے دو تین روز قبل ہمیں کسی خطرے کے پیش نظر دور چلے جانے کو کہا ہم نے علاقہ خالی کردیا 6 ستمبر کو بزدل ہندوستانی فوج نے میرے لاہور پر حملہ کردیا مگر ہمارے فوجیوں نے یہ پل اڑا کر ان کا حملہ ناکام بنا دیا۔ بی آر بی نہر ہمارا مورچہ ثابت ہوئی۔ بی آر بی کی لہروں کو یقیناً وہ داستانیں یاد ہوں گی۔ بابا جی نے جذبات سے بھری آواز میں پاکستان زندہ باد۔ پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگائے اور چلا گیا، واہگہ بارڈر کی طرف جاتے ہوئے میں نے وہ درخت دیکھا جس پر عزیز بھٹی شہید (نشان حیدر) نے تن تنہا دشمن کا مقابلہ کیا تھا اور بالآخر جام شہادت نوش کیا، میں نے وہ عمارت دیکھی جس میں بلوچ رجمنٹ کے ایک اکیلے مجاہد نے کئی روز تک پوری بھارتی بریگیڈ کا مختلف سمتوں سے مقابلہ کیا اور ان کی پیش قدمی روکے رکھی، ہمارے دوست رحمن کیانی مرحوم ان دنوں ایئر فورس میں تھے انہوں نے اپنی طویل نظم لکھی ”لاہور بڑی دورہے اور کوس کڑے ہیں“ اس کا ایک شعر یاد رہا ”سو جاؤ عزیزو کہ فصیلوں پہ ہر اک سمت، ہم لوگ ابھی زندہ و بیدار کھڑے ہیں۔“ 6 ستمبر کی جنگ کے کئی سال بعد اس وقت کے آرمی چیف جنرل موسیٰ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے جنگ کے دوران بہت سی باتیں شیئر کیں اور بتایا کہ ہم نے اپنی جنگی حکمت عملی سے وطن پاک کادفاع کیا اور دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیے، ہم جنگ ستمبر نہیں بھولے اپنے ان غازیوں اور شہدا کو کیسے بھلا دیں جنہوں نے وطن پاک کی حفاظت کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا ان مجاہدوں کو سلام۔ ان غازیوں کو سلام عقیدت، ان شہیدوں کو خراج عقیدت جنہوں نے ہمارے کل کے لیے اپنا آج قربان کردیا۔ ”اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے توں لبھدی پھریں بزار کڑے، اے سودا نقد وی نئیں ملدا توں لبھدی پھریں ادھار کڑے“ اللہ تعالیٰ ہمارے پاک وطن کو سلامت رکھے اور پاک فوج کے مجاہدوں غازیوں کو جنگ ستمبر کے جذبوں سے سرشار رکھے کہ بھارت آج بھی اپنی ازلی دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی سازشوں کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ ہمارے مجاہد آج بھی ان سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں، پاکستان زندہ باد، اسلام پائندہ باد۔
6 ستمبر، وطن پاک کے دفاع کا دن
10:56 AM, 6 Sep, 2021