اسلام آباد: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی کو ہدایات جاری نہیں کر سکتے اور سیاسی معاملات کا حل پارلیمینٹ ہی ہے، عدالت پارلیمینٹ کے وقار کو نیچا دکھانے کی اجازت نہیں دے گی۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 10 ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کے خلاف درخواست پر سماعت کی جس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جن کے استعفے منظور نہیں ہوئے ان کو پارلیمینٹ میں ہونا چاہئے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کا موقف ہے پارٹی نے استعفے دینے پر مجبور کیا تھا؟ اگر ایسا ہے پھر تو آپ اب پارٹی پالیسی کے خلاف جا رہے ہیں۔ اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ایسا نہیں ہے، پارٹی پالیسی کے خلاف یہ ارکان نہیں جا رہے بلکہ ہمارا سیاسی مقصد تمام 123 نشستیں خالی کرنا تھا، پارلیمینٹ میں جانا بعد کا فیصلہ ہو گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ عدالت پارلیمینٹ کے وقار کو نیچا دکھانے کی اجازت نہیں دے گی، اگر آپ پارلیمینٹ واپس جانے کیلئے آئے ہیں تو پھر عدالت یہ کیس سنے گی، سیاسی معاملات کا حل پارلیمینٹ میں ہی ہے، پی ٹی آئی ارکان کے استعفے منظور ہونے تک ان کو پارلیمینٹ میں ہونا چاہئے ۔
درخواست گزاروں کی جانب سے عدالت سے استدعا کی گئی کہ عدالت سپیکر کو ہدایت دے کہ وہ استعفوں کی منظوری سے متعلق اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ یہ عدالت سپیکر قومی اسمبلی کو ہدایات جاری نہیں کر سکتی، عدالت نے شکور شاد کیس میں بھی صرف نظرثانی کا کہا ہے، یہ سیاسی تنازعات ہیں، سیاسی جھگڑے دور کرنے کی جگہ پارلیمینٹ ہے۔